رحلت امام کی خبر، بغداد الرشید جیل میں

رحلت امام کی خبر، بغداد الرشید جیل میں

سلام و درود ہو ہمارے عزیز امام رحمت اللہ علیہ پر جو دلوں پر حکومت کرتے تھے نہ کہ جسموں پر۔

سلام و درود ہو ہمارے عزیز امام رحمت اللہ علیہ پر جو دلوں پر حکومت کرتے تھے نہ کہ جسموں پر۔

سردار علی اصغر گرجی زادہ، دفاع مقدس کا آزاد شدہ قیدی، اپنی یادوں کی کتاب " الرشید جیل " کے عنوان سے شائع کیا ہے۔ جماران خبرنگار کے ساتھ اپنی گفتگو میں، بغداد " الرشید جیل " میں گزرنے والے اپنے عجیب و غریب حالات، دلچسپ یادوں اور وطن لوٹنے کے دن کے بارے میں بہت کچھ بتایا۔

انھون نے امام خمینی (رح) کی عظیم شخصیت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں اظہار کہا: امام کے بارے میں اور جمہوری اسلامی کا بانی کی شخصیت سے متعلق گفتگو کرنے کےلئے بہت سوچنے کی ضرورت ہے۔ لیکن سوچے بغیر اگر کوئی بات کرنا چاہیں تو خلاصہ کے طور پر کہہ سکتے ہیں کہ ہم پاسداران، امام کو اہل بیت علیہم السلام کا واضح نمونہ جانتے تھے، چنانچہ سپاہ کا عضو بنے سے پہلے امام سے خاص عشق اور لگاو رکھتے تھے۔

انھون مزید کہا: ان دنوں کی بات ہےکہ جب ہم خوزستان میں تھے اور امام قم میں رہتے تھے؛ مجھے اچھی طرح یاد ہےکہ ہفتہ میں دو بار ریل گاڑی میں زحمتیں اور مشقتیں جھیلنے بعد، قم پہنچتے تھے اور صبح سویر امام کے گھر کے سامنے کھڑے ہوجاتے تھے۔ معمول کے مطابق، امام صبح ٹھیک آٹھ بجے گھر کی چھت سے سب کےلئے ہاتھ ہلاتے تھے۔

ہم جوان اور بڑے بے تاب تھے اور تھوڑی سی دیر ہونے پر سب مل کر " ہم خمینی کے منتظر ہیں " کا نعرہ لگانا شروع کرتے تھے۔ ہمارے نعرے کے جواب میں، گھر کے اندر موجود افراد کہتے تھے کہ امام سو رہے ہیں یا تھکے ہوئے ہیں؛ کم سے کم نعرہ نہ لگائیں۔ کیونکہ امام عام طور سے پوری رات جاگے رہتے تھے، لیکن ہم دوبارہ فریاد بلند کرتے تھے: " ہم خمینی کے منتظر ہیں " ایک بار جب امام ہاتھ ہلا رہے تھے، میں نے غور سے دیکھنا شروع کیا تو نہ سونے اور تھکنے کے آثار بخوبی آپ کی آنکھوں میں نمایا تھے، لیکن نعروں اور عوام کے احترام میں تشریف لائے تھے تاکہ عوام زیادہ دیر کھڑے نہ رہیں۔

بغداد الرشید جیل میں گزر ہوئے حالات، گرجی زادہ کی زبانی

ہم بغداد " الرشید جیل " میں قید تھے۔ جب ہم نے امام کی رحلت کی خبر سنی تو ہم چاہتے تھے کہ فریاد بلند کرکے چیخ و پکار کریں، اپنا سر پیٹھیں اور عزاداری کریں۔ شاید یہ کام کرنے میں جو چیز مانع ہوئی وہ صرف یہ تھی کہ عراقی یہ سوچیں گے کہ انھیں کہاں سے خبر ہوئی؟ اور ہم نہیں چاہتے تھے کہ عراقیوں کو معلوم ہو کہ ہمارے پاس ایک ریڈیو خفیہ طورپر ہے جس سے خبریں سنتے ہیں۔ اگلے دن ایک ہفتے تک اونچی آواز سے قرآن کریم کی تلاوت کرنا شروع کی۔

انھوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ فرزندان انقلاب اور خاص کر بسیج اور سپاہ کے حضرات کا امام (رح) کے ساتھ خاص عشق، حقیقی لگاو  اور بے مثال محبت تھی اور اس عشق کی انتہا اور اعلی درجہ، ہم نے اس دن دیکھا کہ جس دن ہم سب آزاد ہوئے، آزاد ہونے والے اکثر قیدی کو حرم امام لائے گئے۔ جب ہم حرم مطہر پہنچے تو کوئی بھی اپنے ہاتھ اور پاوں پر قابو اور کنٹرول نہیں رکھتا تھا، سب کے سب ناخواستہ زمین پر گر پڑے؛ کچھ تو بے ہوش بھی ہوئے اور کچھ اس قدر گریہ کر رہے تھے کہ کوئی بھی ان کے قریب تک نہ جاسکا تاکہ انھیں روکے، کافی دیر تک حضرات امام کے وقتی ضریح سے لپٹ کر زار و قطار گریاں اور چیخ و پکار کرتے تھے اور کسی طریقے سے اپنا دل خالی کر رہے تھے، گویا کہ امام کو دوبارہ جماران میں آتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔

گرجی زادہ نے یاد دہانی کی: سلام و درود ہو ہمارے عزیز امام رحمت اللہ علیہ پر جو دلوں پر حکومت کرتے تھے نہ کہ جسموں پر۔ میری نظر میں امام اس لئے امام بنے کہ آپ معصوم امام(ع) کی ایک مثالی نمونہ بن چکے تھے، کیونکہ امام معصوم کی خصوصیات اور امتیازات آپ کے وجود میں عیاں ہوچکے تھے؛ طبیعی طور پر اس حد تک بے نظیر لگاو اور عشق بھی عوام میں آشکار ہوچکا تھا۔

 

ماخذ: جماران خبررساں ویب سائٹ

ای میل کریں