خمینی کا کہنا تھا: ایران کا اسلامی انقلاب بھی امام راحل(رح) کی رہبری میں، رسول اعظم(ص) کی پیروی کرتے ہوئے، ایک اخلاقی انقلاب تھا۔
۱۔ ’’ انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق‘‘ نبی اعظم(ص) کا یہ عظیم جملہ، نہ صرف ایک معیار، ایک پیغمبرانہ نصیحت ہے بلکہ ’’ امر پیغمبری ‘‘ کا فلسفہ نما راز بھی ہے؛ پیغمبر اعظم(ص) کی کوشش تھی کہ معاشرے سے اخلاقی برائیوں کا خاتمہ کرنے کے ساتھ، معاشرے میں نیک اور اچھے اخلاق کو اس طرح توسیع دیں کہ ’’ اخلاق ‘‘ معاشرے کے ایک ایک فرد کے دل میں جگہ بنائے۔
ایران کا اسلامی انقلاب بھی امام راحل(رح) کی رہبری میں، رسول اعظم(ص) کی پیروی کرتے ہوئے، ایک اخلاقی انقلاب تھا اور یہ جاننے کےلئے کہ یہ انقلاب مطلوبہ ہدف تک پہنچنے میں کس حد تک کامیاب رہا ہے، معاشرے میں پائے جانے اخلاق کی روح کے میزان کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
۲۔ اخلاق، ہوی و ہوس، نفسانیات پر پاوں رکھ کر کمال کی طرف چلنے کا نام ہے، اخلاق پرمبنی کردار کا وجودی فلسفہ اور راز ’’ میں ‘‘ ہے اور دلچسپ بات یہ ہےکہ انسانیت کی بنیادی شرط اور انسان اور حیوان میں اصلی و معیاری فرق بھی یہی اخلاقی اصول اور خودخواہی (منیت) اور خود پسندی کی نفی اور اللہ تعالی کو معیار بنانا اور اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش اور اس کی رضا پر راضی رہنا ہے، یعنی کوئی بھی شخص اللہ اور اس کی رضا کےلئے برا کام نہیں کرتا؛ تہمت نہیں لگاتا؛ جھوٹ نہیں بولتا؛ ربا نہیں کہاتا اور چوری نہیں کرتا۔
۳۔ اخلاق، اگرچہ ایک فلسفی امر ہے، لیکن ’’ اخلاق ‘‘ کے فلسفی چہرے کو اس قدر نشو و نما نہیں دینا چاہیئے کہ انسان کو ’’ اخلاقی زندگی ‘‘ دسترس سے دور دکھائے دے۔ اخلاقی معارف کا تعارف، اپنی پیچیدگیوں کے عروج کے باوجود سادہ، قابل دسترس، امکان پذیر اور قابل عمل ہونا چاہیئے۔ اخلاق کے معنی سادہ زبان میں یہ ہےکہ جھوٹ نہ بولیں، افترا نہ باندھیں، شخصیت کُشی نہ کریں، دوسروں کی برائیوں کی جگہ ان کی خوبیوں کو بیان کریں، اپنے مخالفین سے اچھا برتاو اور بہتر انداز میں گفتگو کریں اور سب سے اہم بات یہ کہ خود کو اور اپنی سوچ و فکر کو حق مطلق نہ سمجھیں۔
اخلاق کا تعارف کلمات اور الفاظ کے دائرہ میں نہیں کرسکتے، بلکہ اخلاق، عمل کے لباس میں پہنچانا جاتا ہے، چنانچہ بعض اہل معرفت کہتے ہیں: ہمیں اللہ تعالی کےلئے ایک قدم آگے بڑھانا اور قیام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرہ کو اخلاقی برائیوں کی قید سے چھٹکار ملے۔
بنیادی اور اساسی مشکل اور آفت جسے دوام ملنے کی صورت میں ہمارے اسلامی معاشرے کو یقیناً تباہی اور نیستی کی طرف دھکیل دےگی وہ ’’ بد اخلاقی، اخلاقی اصول و آداب اور قوانین کے پابند نہ رہنا ہے؛ غیبت، جھوٹ، تہمت، بدخواہی، کینہ، دشمنی، بغض، حسد اور ... معاشرہ کو تباہ کرتے ہیں۔
۴۔ برے سلوک اور گندے اخلاق کا مقابلہ، اچھے اخلاق اور برتاو کے ساتھ ہی ممکن ہے؛ بداخلاقی اور ناشایستہ اخلاق کو دوبارہ دہرانے سے نہیں۔
رہبر معظم انقلاب نے ایک دن فرمایا: ’’ گندے ہاتھوں سے گندے شیشے کو صاف نہیں کیا جاسکتا ‘‘ معاشرے میں موجود بزرگ علما اور دانشور حضرات ہر ایک، اپنے ذاتی حلقے پر اثر و رسوخ رکھتے ہیں، ان کو چاہیئے کہ اپنے دوستوں اور احباب کے حلقے کو معاشرے میں اخلاق، اچھے سلوک کو توسیع دینے اور بداخلاقی، کجروی اور برے برتاو کو روکنے کےلئے استعمال کریں۔
انقلاب اخلاقی راہی بہ رہایی؛ اصغر زارع کہنمویی ص۱۷
جاری ہے