معاشرتی عدالت

معاشرتی عدالت سے اعراض، اسلام کے ساتھ خیانت

امام خمینی(ره) کے نزدیک ائمہ(ع) کی حکمرانی کا مقصد عدالت کا نفاذ تھا

اگرچہ پیغمبروں  اور ائمہ (ع)کا اصلی مقصد انسان کو انتہائی کمال تک پہنچانا ہے لیکن یہ مقصد معاشرتی عدالت کی برقراری ہی سے حاصل ہوتا ہے اور معاشرتی عدالت اسلامی حکومت کی تشکیل ہی سے برقرار ہوتی ہے۔ اسلامی حکومت معاشرتی عدالت کا راستہ ہموار کرتی ہے اور ایسی فضا میں  ہی انسان غیر مادی امور کی جانب توجہ دے سکتا اور کمال تک پہنچ سکتا ہے۔

بنا بر یں  امام خمینی(ره)  کا اپنے بیانات میں  رسولوں  کے بھیجے جانے کا مقصد عدل کا نفاذ اور انفرادی و معاشرتی عدالت کی برقراری قرار دینا بہت فطری ہے۔  مقصود یہ ہے کہ معاشرتی عدالت کی برقراری ایک ابتدائی مقصد ہے جو اصلی مقصد کا  راستہ ہموار کرتا ہے ۔ امام خمینی(ره)  کے نزدیک ائمہ (ع)کی حکمرانی کا مقصد بھی عدالت کا نفاذ ہی تھا یہاں  تک کہ آپ نے امام حسین (ع) کی تحریک کا مقصد بھی عدالت کا نفاذ  ہی بتایا ہے۔ اس سلسلے میں  آپ فرماتے ہیں :  ’’سید الشہداء (ع)نے جس دن سے تحریک کا آغاز کیا ۔۔۔۔ (اسی دن سے ) آپ کے پیش نظر عدالت کا نفاذ تھا ‘‘۔  (صحیفہ امام،  ج ۲۰، ص ۱۹۰)

 امام خمینی(ره) کے نزدیک معاشرتی عدالت کے اس عظیم مقام اور اس مسئلے کے بارے میں  آپ کے اصولی زاویہ نگاہ کے پیش نظر معاشرتی عدالت کے بارے میں  امام خمینی(ره)  کے نظریات کے جائزے سے یہ فطری نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ عصر حاضر میں  اسلامی عدالت پسندی کی فکر کو امام خمینی(ره)  نے زندہ کیا ہے اور آپ کی جانب سے اس کے زندہ کئے جانے میں  اس حد تک گہرائی پائی جاتی ہے کہ آپ کے نزدیک معاشرتی عدالت کی نفی اسلام کے ساتھ خیانت کے مترادف ہے۔ آپ نے مکہ میں  سعودی حکام کے ہاتھوں   حجاج کے قتل عام کی مذمت ، نیز ، تیر ماہ ۱۳۶۷ھ ش مطابق جون ۱۹۷۸ء  میں  مسلط کردہ جنگ کے بارے میں  سلامتی کونسل کی قرار داد قبول کرنے کی مناسبت سے جو پیغام دیا اس میں  فرمایا:

’’علماء کو ہرگز جس چیز سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے اور اغیار کے پروپیگنڈے سے جس کو ترک نہیں کرنا چاہئے وہ محروموں اور ناداروں کی حمایت ہے، کیونکہ جس نے اس کو ترک کر دیا اس نے گویا اسلام کی معاشرتی عدالت سے رخ پھیر لیا۔ ہمیں ہر طرح کے حالات میں اس عظیم ذمہ داری کا بیڑا اٹھانا ہے اور اگر ہم نے اس کی برقراری میں کوتاہی کی تو گویا ہم نے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کا ارتکاب کیا‘‘۔ (   صحیفہ امام، ج۲۰،ص ۲۴۴)

ای میل کریں