امام جعفر صادق[ع] نے اپنے والد بزرگوار کی شہادت کے بعد، اکتیس سال کی عمر میں ایک سو چودہ ہجری قمری کو عوام کی ہدایت کا فریضہ سنبھالا۔
اہل بیت علیہم السلام کی معرفت اور پہچان کی ضرورت اور ان حضرات کی پیروی (جیسا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے آیہ مودت " قل لاٰ اَسالکم علیہ اَجراً الا المودّۃ فی القربیٰ" کی بنیاد پر اپنی آخری عمر تک امت کو ان حضرات کی معرفت اور شناخت اور ان کے احکام کی پیروی کی تاکید فرماتے رہے ہیں) اور قرآن مجید اور صحیح اور متین روایات میں ان حضرات کی عظمت ومقام کی معرفت ایک ایسی حقیقت ہےکہ اگر انسان اس پر توجہ کرے تو دنیا و آخرت کی سعادت کا سبب بن جائے اور اگر اس سے غفلت کی جائے تو ابدی شقاوت و بدبختی اور ہلاکت کا سبب ہے اور جس سے انسان کے تمام اعمال اور زحمتیں رائیگاں ہوجاتی ہیں۔
اہل قربیٰ میں سے ایک، امام جعفر صادق علیہ السلام ہیں کہ جس نے اپنے والد بزرگوار کی شہادت کے بعد، اکتیس سال کی عمر میں ایک سو چودہ ہجری قمری کو عوام کی ہدایت و رہنمائی کا فریضہ سنبھالا اور منصب امامت پر فائز ہوئے۔ آپ کا دور امامت چونتیس برسوں پر محیط ہے۔ سن ایک سو چودہ سے ایک سو بتیس ہجری قمری تک اموی دور حکومت تھا جبکہ ایک سو بتیس سے لے کر ایک سو اڑتالیس ہجری قمری یعنی آپ کی شہادت تک، عباسی حکمراں بر سر اقتدار تھے۔
جب آپ منصب امامت پر فائز ہوئے تو امویوں اور عباسیوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری تھی جس کی بناپر اموی حکمرانوں کی توجہ خاندان رسالت سے کسی حد تک، ہٹ گئی اور خاندان رسالت کے افراد نے امویوں کے ظلم و ستم سے کسی حد تک سکون کا سانس لیا۔ اسی دور میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے اسلامی تعلیمات کی ترویج کےلئے بے پناہ کوششیں انجام دیں اور مدینے میں مسجد نبوی[ص] اور کوفہ شہر میں مسجد کوفہ کو یونیورسٹی میں تبدیل کردیا جہاں انہوں نے ہزاروں شاگردوں کی تربیت کی اور ایک عظیم علمی و فکری تحریک کی بنیاد ڈالی۔ اس تحریک کو خوب پھلنے پھولنے کے مواقع ملے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کا زمانہ، علوم و فنون کی توسیع اور دوسری ملتوں کے عقائد و نظریات اور تہذیب و ثقافت کے ساتھ اسلامی افکار و نظریات اور تہذیب و ثقافت کے تقابل اور علمی بحث و مناظرے کے اعتبار سے خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اسی زمانے میں ترجمے کے فن کو بڑی تیزی سے ترقی حاصل ہوئی اور عقائد و فلسفے دوسری زبانوں سے عربی میں ترجمہ ہوئے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کا زمانہ، تاریخ اسلام کا حساس ترین دور کہا جاسکتا ہے۔ اس زمانے میں ایک طرف تو امویوں اور عباسیوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری تھی اور دوسری علویوں کی بھی مسلح تحریکیں جاری تھیں۔ آپ نے ہمیشہ عوام کو حکمرانوں کی بدعنوانیوں اور غلط حرکتوں نیز غیر اخلاقی و غیر اسلامی سرگرمیوں سے آگاہ کیا۔
آپ نے عوام کے عقائد و افکار کی اصلاح اور فکری شکوک و شبہات دور کرکے اسلام اور مسلمانوں کی فکری بنیادوں کو مستحکم کرنے کی کوشش کی اور اہل بیت علیہم السلام کی فقہ و دانش کو اس قدر فروغ دیا اور اسلامی احکام و شیعہ مذہب کی تعلیمات کو دنیا میں اتنا پھیلایا کہ مذہب شیعہ نے "جعفری مذہب" کے نام سے شہرت اختیار کرلی۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے جتنی احادیث راویوں نے نقل کی ہیں، اتنی کسی اور امام سے نقل نہیں کیں۔
امام صادق علیہ السلام سے کسب فیض کرنے والے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جن میں ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ آپ کے ممتاز شاگردوں میں ہشام بن حکم، محمد بن مسلم، ابان بن تغلب، ہشام بن سالم، مفضل بن عمر اور جابر بن حیان کا نام خاص طور سے لیا جاسکتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک نے بڑا نام پیدا کیا، مثال کے طور پر ہشام بن حکم نے اکتیس کتابیں اور جابر بن حیان نے دو سو سے زائد کتابیں مختلف علوم و فنون میں تحریر کی ہیں۔ جابر بن حیان کو علم کیمیا میں بڑی شہرت حاصل ہوئی اور وہ بابائے علم کیمیا کے نام سے مشہور ہیں۔
اہل سنت کے درمیان مشہور چاروں مکاتب فکر کے امام، بلاواسطہ یا بالواسطہ، امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں خاص طور پر امام ابو حنیفہ نے تقریباً دو سال تک براہ راست، آپ[ع] سے کسب فیض کیا۔ آپ کے علمی مقام کا اعتراف کرتے ہوئے امام ابو حنیفہ نے کہا ہے: " میں نے جعفر ابن محمد سے زیادہ پڑھا لکھا، کوئی اور شخص نہیں دیکھا"۔
ایک اور مقام پر امام ابو حنیفہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں گزارے ہوئے دو سالوں کے بارے میں کہا: "لولا السنتان، لھلک النعمان" یعنی اگر یہ دو سال نہ ہوتے تو نعمان ہلاک ہوجاتا!!
امام جعفر صادق علیہ السلام کی زندگی کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
پہلا دور وہ ہے جو آپ نے اپنے دادا امام زین العابدین علیہ السلام اور والد امام محمد باقر علیہ السلام کے زیر سایہ گزارا۔ یہ دور سن تراسی ہجری سے لے کر ایک سو چودہ ہجری قمری تک پھیلا ہوا ہے۔
دوسرا دور ایک سو چودہ ہجری سے ایک سو چالیس ہجری قمری پر محیط ہے۔ اس دور میں امام صادق علیہ السلام کو اسلامی علوم و معارف پھیلانے کا بھرپور موقع ملا جس سے آپ نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اس دور میں آپ[ع] نے چار ہزار سے زائد شاگردوں کی تربیت کی اور مکتب شیعہ کو عروج پر پہنچایا۔
تیسرا دور، امام کی آخری آٹھ سال کی زندگی پرمشتمل ہے۔ اس دور میں آپ پر عباسی خلیفہ "منصور دوانیقی" کی حکومت کا سخت دباؤ تھا اور آپ کی ہر قسم کی نقل و حرکت پر مستقل نظر رکھی جاتی تھی۔ عباسیوں نے چونکہ خاندان پیغمبر کی حمایت و طرفداری کے نعرے کی آڑ میں اقتدار حاصل کیا تھا، شروع شروع میں عباسیوں نے امام علیہ السلام پر دباؤ نہیں ڈالا اور انہیں تنگ نہیں کیا لیکن عباسیوں نے آہستہ آہستہ اپنے قدم جمانے اور اقتدار مضبوط کرنے کے بعد امویوں کی روش اپنا لی اور ائمہ معصومین علیہم السلام اور ان کے محبین کو تنگ کرنے اور ان پر ظلم و ستم کرنے کا سلسلہ شروع کردیا اور اس میں وہ امویوں کو بھی پیچھے چھوڑ گئے!!
امام خمینی(رہ) نے اپنی کتاب "تہذیب نفس" ص733 پر امام جعفر صادق(ع) سے روایت کی ہے:
وہ شخص، مومن کیسے ہوسکتا ہے جو اپنے حصے سے (جو اللہ نے اسے دیا ہے) ناخوش رہتا ہے اور اپنی حیثیت کو (جو اسے اللہ نے دی ہے) حقیر سمجهتا ہے، حالانکہ اس کے بارے میں فیصلہ کرنے والا اللہ ہی ہے۔
دوسری روایت نقل کرتے ہوئے امام خمینی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ مومن کے مومن ہونے کا کیسے پتہ چلتا ہے؟
آپ[ع] نے فرمایا: اللہ کے آگے سرتسلیم خم ہونے سے؛ نیز خوشی اور ناخوشی کے مواقع پر راضی رہنے سے۔
آخر کار 65 سال کی عمر میں منصور دوانقی کی طرف سے مسموم ہوئے جس سے آنحضرت کی شہادت واقع ہوئی۔ آنحضرت کی شھادت کی تاریخ کے بارے میں دو قول نقل ہوۓ ہیں۔ بعض نے 15 رجب سن 148 ھ ق اور بعض نے 25 شوال سن 148 بیان کیا ہے اور مشہور شیعہ مورخوں اور سیرہ نویسوں کے نزدیک دوسرا قول یعنی 25 شوال ہی معتبر ہے۔
آنحضرت کی شھادت کے بعد حضرت امام موسی کاظم(ع) نے بھائیوں اور افراد خاندان کے ہمراہ آنحضرت کے غسل و کفن کے بعد بقیع میں دفن کیا۔
والسلام علینا وعلی عبادہ الصالحین
التماس دعا