امام خمینی(رح) کی تمنیٰ، انسانیت کی آزادی

امام خمینی(رح) کی تمنیٰ، انسانیت کی آزادی

خان کمال: آپ نہ صرف ایران کے رہبر ہیں بلکہ دیگر تمام ملتوں کے بھی امام و رہبر ہیں؛ کیوںکہ امام کی تمنی اور آرزو انسانیت کو قید کی زنجیروں سے آزاد کرانا تھا۔

خان کمال  کا کہنا تھا: آپ نہ صرف ایران کے رہبر ہیں بلکہ دیگر تمام ملتوں کے بھی امام و رہبر ہیں؛ کیوںکہ امام کی تمنی اور آرزو انسانیت کو قید کی زنجیروں سے آزاد کرانا تھا۔

ادارہ کلچر اور اسلامی روابط رپورٹ کے مطابق، امام خمینی(رح) کی ۲۷ویں برسی کی مناسبت سے ایران کی ثقافتی رایزنی کی جانب سے بنگلادش میں ’’ اُمت ِ اسلامی، امام خمینی(رح) کے وصیتنامہ میں ‘‘ کے موضوع پر ایک سیمینار منعقد ہوا۔

سیمینار میں خصوصی مہمانان، بنگلادش کے وزیر داخلہ اور پارلیمان کا رکن اسد الزمان خان کمال، ڈاکا میں ایران کے سفیر جناب واعظی، بنگلادش کے اسلامی انجمن کے مدیر خضر حیات خان، امام بخاری اکیڈمی کے مدیر مولانا خلیل الرحمن صدیقی، اور ... تھے۔ پروگرام میں معاشرے کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے علمائے اہل سنت اور اہل تشیع، یونیورسٹی کے محترم اساتذہ، طلبہ اور جامعۃ المصطفی کے نمایندے شریک تھے۔

بنگلادش میں ایران کے ثقافتی مشیر نے کہا: امام خمینی(رح) کی رحلت کو ۲۷سال گزر چکے ہیں؛ لیکن آج بھی اس مرد خدا کی یاد، آپ کے عاشقین اور چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ، تازہ اور جاویداں ہے۔

جناب حسینی نے کہا: امام خمینی(رح) کا وصیت نامہ، ان سفارشات اور نصیحتوں کی نوع سے نہیں جو عام طور پر اشخاص اپنی عمر کے آخر میں اپنے مال و دولت، اولاد اور ذاتی مسائل اور ... کے بارے میں لکھتے ہیں، بلکہ امام جہاں سے عظیم اسلامی تصور کائنات اور فرض شناس، ذمہ دار فقیہ کی شخصیت کے مقام پر فائز تھے اور ایک دینی اور سیاسی رہبر کے طور پر، جس نے انقلاب اسلامی کی رہبری کی اور کامیابی تک پہنچایا ہے، اپنے وصیتنامہ میں نسل حاضر کی ایرانی قوم، آنے والی نسلوں اور اُمت اسلامی کو لاحق مسائل کے حوالے سے فکرمندی، پریشانی، اُمیدیں اور توقعات کو بیان فرمایا ہے۔

آگے چل کر جناب اسد الزمان خان کمال نے اپنی گفتگو میں کہا: ہم اپنی عمر میں بہت سی چیزوں کو دیکھنے اور سمجھنے سے محروم رہیں؛ لیکن امام خمینی(رح) کی رہبری و قیادت کو میں نے خود دیکھا ہے۔ میں نے دیکھا کہ آپ نے کس طرح جلاوطنی میں بھی، عوام کے دلوں میں جگہ بنائی۔ امام خمینی(رح) نے ان بحرانی اور ہولناک حالات میں بھی پوری قوم کو ایک ساتھ متحد اور منظم کیا۔

خان کمال نے تاکید کی: آج نیا ایران، امام خمینی(رح) سے متعلق ہے۔ آپ نہ صرف ایران کے رہبر ہیں بلکہ دیگر تمام ملتوں کے بھی امام و رہبر ہیں؛ کیوںکہ امام کی تمنی اور آرزو انسانیت کو قید کی زنجیروں سے آزاد کرانا تھا۔

بنگلادش میں ہمارے سفیر نے بھی حاضرین سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: امام خمینی، مکمل تبدیلی چاہتے تھے؛ اس لئے انقلاب برپا کیا۔ امام اہل ذوق و شعر اور ادیب بھی تھے؛ یہاں تک کہ بڑے شعرا کے اشعار پر اپنی تنقیدی رائے بیان کرتے تھے۔ یہ تمام اوصاف امام کے الٰہی سیاسی وصیتنامہ میں جلوہ گر ہیں۔

انھوں نے کہا: اس عظیم الہی مرد کی شخصیت میں تین خصوصیات ایک ساتھ جوڑی ہوئیں تھیں۔ میری نظر میں فلسفہ، سیاست اور معنویت حضرت امام خمینی(رح) کے انقلابی افکار و نظریات کا عظیم تحفہ ہے، لیکن اس سے برتر ’’ ولایت فقیہ ‘‘ کا مسئلہ ہے۔

سیمینار کے صدر محترم محبوب الرحمن کی تقریر، مراسم کے اختتامیہ کا حصہ تھا۔ جہاں سے آپ کو انقلاب اسلامی کے ابتدائی سالوں میں امام خمینی(رح) کے حضور مشرف ہونے کی توفیق حاصل تھی۔ آپ نے امام کی یاد و تکریم کی اور امام کے وصیتنامہ کے آخری حصہ، جہاں لکھتے ہیں: ’’ میں پُر سکون دل اور مطمئن قلب کے ساتھ ...‘‘ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:  یہ جملہ مکمل طور پر قرآنی آیت ’’یا ایتھا النفس المطمئنہ...‘‘ کے ساتھ تطبیق رکھتا ہے۔ گویا امام(رح) نے الٰہی ندا کو لبیک کہا اور دارفانی سے وداع کی۔

 

ماخذ: http://www.icro.ir/

ای میل کریں