اس رات مدرسہ رفاہ میں اچانک کسی نے آکر بتایا کے کوئی اسکول کے پچھلے صحن کے دروازے کو کھٹکھٹا رہا ہے اس زمانے میں ہتھیار نہ ہونے کی وجہ سے لکڑی سے دروازے کی حفاظت کی جاتی تھی اور جب دروازہ کو کھولا تو دیکھا کے امام کھڑے ہیں۔
امام نے 12 بہمن کو ایران میں واپس کے دن پہلے بہشت زہرا میں تقریر کی پھر وہاں سے امام رہ کو آرام کے لئے رفاہ اسکول میں لے جایا گیا وہاں پر ایک دن کے قیام کے بعد امام کو ایک دوسرے مدرسہ (مدرسہ علوی) میں منتقل کردیا گیا۔
آیت اللہ خامنہ ای 13 بہمن کی رات کے بارے میں نقل کرتے ہوے فرماتے ہیں کے اس رات تہران کے مدرسہ رفاہ میں اچانک کسی نے آکر بتایا کے کوئی اسکول کے پچھلے صحن کے دروازے کو کھٹکھٹا رہا ہے اس زمانے میں ہتھیار نہ ہونے کی وجہ سے لکڑی سے دروازے کی حفاظت کی جاتی تھی اور جب دروازہ کو کھولا تو دیکھا کے امام کھڑے ہیں۔
امام کو دیکھتے ہی ایک آواز گونجی امام آگے امام آگے اس مدرسہ میں موجود افراد میں سے بیس لوگ امام کے ارد گرد جمع ہو کر امام کا ہاتھ کا چومنے لگے امام نے بھی تمام تھکاوٹ کے با وجود خندہ پیشانی کے ساتھ لو گوں کی محبت کا جواب دیا اور ایک تبسم بھری نگاہ سے سب کی طرف دیکھا مجھے تعجب ہو رہا تھا کے امام نے صبح سے لے کر ابھی تک نہ کچھ کھایا ہے نہ کچھ پیا ہے اور پھر بہشت زہرا میں تقریر بھی کی اتنی تھکاوٹ کے باوجود بھی کس طرح بڑے آرام سے لوگوں سے مل رہے ہیں میں بھی آیا اور ایک میٹر کی دوری پر کھڑا ہو کر اس دلنشین منظر کا تماشا کرنے لگا کافی سالوں بعد امام کو دیکھ رہا تھا لیکن یہ سوچ کر کے کہیں امام کو اذیت نہ ہو دور ہی کھڑا رہا امام آے اور سیڑھیوں کی طرف بڑھ گے نیچے سے تقیریبا پچاس ساٹھ لوگ محبت بھری نگاہ سے اپنے رہبر کو دیکھ رہے تھے امام سیڑھیوں سے اوپر گے اور آخری سیڑھی پر جا کر لوگوں کی طرف رخ موڑھ کر بیٹھ گے جب لوگوں نے دیکھا کے امام زمین پر بیٹھ گے ہیں وہ بھی اپنی جگہ پر رک گے امام نے بڑے پیار اور تبسم سے ان سب کی احوال پرسی کی اور گفتگو کرنا شروع ہوگے اور تقریبا دس پندرہ منٹ امام نے ہم سے گفتگو کی امام کی گفتگو کے ان لمحات کو میں کبھی نہیں بھول سکتا یہ لمحے میری زندگی کے سب بہترین لمحوں میں سےتھے ۔