اسلام ٹائمز: جنرل ضیاءالحق کے طیارے کو پیش آنے والے حادثے کے بارے میں آپ سمیت ان کی اولاد نے کبھی دلچسپی ظاہر نہیں کی! آپ بتا سکتے ہیں کہ اس حادثے کی تحقیقات کس نہج پر آکر رک گئی تھیں؟
اعجاز الحق: جنرل ضیاءالحق اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی جنرل اختر عبدالرحمان بہاولپور میں ایم آئی، اے ون ٹینک کا مظاہرہ دیکھنے نہیں جانا چاہتے تھے، لیکن اس وقت کے جی او سی ملتان جنرل درانی جو صدر ضیاء کے ملٹری سیکرٹری بھی رہ چکے تھے، انہوں نے بہت اصرار کیا اور انہوں نے ہی ضیاء الحق کو وہاں جانے پر مجبور کیا۔ اسی طرح آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر امتیاز نے راتوں رات جنرل اختر عبدالرحمان کو یہ کہہ کر کہ جنرل ضیاء کہیں جنرل اسلم بیگ کو آرمی چیف نہ بنا دیں، اس لئے آپ کا ساتھ جانا بہت ضروری ہے اور انہیں بھی ساتھ جانے پر مجبور کر دیا۔
تحقیقات کا آغاز بندیال کمیشن سے ہوا، لیکن نہ ہی فوج اور نہ ہی اس کے بعد آنے والی حکومتوں نے دیانتداری سے اس کی انکوائری کرائی، لیکن بہت سی اندرونی و بیرونی قوتوں نے اس میں رکاوٹ ڈالی۔
پاکستان اور امریکہ کی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی تحقیقات سے بھی ثابت ہوا کہ یہ حادثہ نہیں تھا بلکہ طیارہ گرایا گیا تھا۔
اسلام ٹائمز: تو آپ کے والد کے "قتل" میں امریکہ اور اسرائیل ملوث تھے؟
اعجاز الحق: جی بالکل، اس تمام سازش میں بھارتی اور امریکی سفارت کار نیز فضائیہ کے چند سابق افسران شامل تھے۔ میں نے اس حوالے سے ایک کتاب لکھی ہے جو بہت جلد منظر عام پر آ رہی ہے۔ اس کتاب میں تمام واقعات اور حقائق بتائے گئے ہیں۔
اسلام ٹائمز: لیکن دہشتگردی کا بیج تو آپ کے والد نے بویا اور آج قوم اس فصل کو کاٹ رہی ہے؟
اعجاز الحق: دہشتگردی کا آغاز بھٹو دور میں ہی ہوگیا تھا، جب بلوچستان میں قوم پرستوں نے بغاوت کی اور پہاڑوں پر چڑھ گئے۔ الذوالفقار نے شام اور افغانستان میں تربیت لی، پاکستان کے اندر دھماکے، جہاز اغوا کرکے دوسرے ملک میں لے جانا ان کا کام تھا۔ تب سے پاکستان میں دہشتگردی کا آغاز ہوا، جبکہ ضیاء کا 11 سالہ دور سنہری دور تھا۔ پاکستان کو امت مسلمہ میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔
اسلام ٹائمز: یہ بھی کہا جاتا ہے کہ علامہ عارف حسین الحسینی کو شہید کروانے میں ضیاءالحق براہ راست ملوث تھے؟
اعجاز الحق: دیکھیں جی، جب کوئی بندہ اقتدار میں ہوتا ہے تو اس کے دور میں ہونے والا ہر اقدام اسی کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے علامہ حسینی کو جب شہید کیا گیا تو حالات کچھ اس طرح کے بن چکے تھےکہ سارا ملبہ میرے والد پر ڈال دیا گیا، حالانکہ میرے والد، امام خمینی کے بہترین دوست تھے۔ وہ اکثر ہمیں بھی ذکر کرتے تھےکہ امام خمینی سے مل کر انہیں نئی طاقت ملتی ہے۔ وہ امام خمینی کی شخصیت سے بہت متاثر تھے اور اسی وجہ سے وہ علامہ حسینی کا بھی احترام کرتے تھے۔
وہ اہل تشیع کو پاکستان کی اہم قوت سمجتھے تھے۔ آپ کو یاد ہوگا جب مفتی جعفر کی قیادت میں اہل تشیع نے اسلام آباد میں دھرنا دیا اور سیکرٹریٹ پر قبضہ کر لیا تو ضیاءالحق نے ان کے تمام مطالبات تسلیم کر لئے تھے۔
وہ اہل تشیع کو احترام دیتے تھے، لیکن کچھ بیرونی قوتوں کو یہ پسند نہیں تھا، یہی وجہ ہےکہ ایک منصوبہ بندی سے علامہ حسینی کو شہید کروا دیا گیا اور اس کا ملبہ میرے والد کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ علامہ حسینی کو امریکہ نے اس لئے قتل کرایا کہ وہ ایران کے اسلامی انقلاب کی پاکستان میں ترویج کر رہے تھے۔ امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان میں ایرانی انقلاب کے اثرات پہنچیں۔ اس حوالے سے ایک عرب ملک کو بھی امریکہ نے استعمال کیا اور پاکستان میں دہشتگردی کروائی گئی۔
اسلام ٹائمز: جنرل راحیل شریف کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں، کیا دہشتگردوں کیخلاف انکے اٹھائے گئے اقدامات سے ملک مضبوط اور مستحکم نہیں ہوا؟
اعجاز الحق: جنرل راحیل شریف ایک مکمل پروفیشنل سولجر ہے۔ انہوں نے جس طرح ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کےلئے اقدامات اٹھائے ہیں، اس سے ملک مضبوط اور مستحکم ہوا ہے۔ جنرل راحیل شریف نے تو آپریشن ضرب عضب شروع کرکے ملک کو دہشتگردی سے جس طرح نجات دلائی ہے اس پر پوری قوم فخر کرتی ہے۔ آرمی چیف ملک کو دہشتگردی اور لاقانونیت سے پاک کرکے اسے مضبوط، خوشحال اور خطروں سے پاک ملک بنانا چاہتا ہے۔
ماخذ: http://islamtimes.org/ur