امام خمینی[رح] ایک ہی تھے، معاشرہ بدل دیا

امام خمینی[رح] ایک ہی تھے، معاشرہ بدل دیا

ہم سب کو اجتماعی توبہ اور اللہ کی طرف رجوع ہی کرنا ہوگا۔

پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود پاکستان کی معروف درسگاہ جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے دو مرتبہ سربراہ رہ چکے ہیں۔ وہ جناح ویمن یونیورسٹی سمیت کئی سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے چکے ہیں نیز مختلف موضوعات پر 15 سے زائد کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔

اسلام ٹائمز، نے آپ کے ساتھ "موجودہ ملکی حالات" کے تناظر میں جامعہ کراچی میں ان کے دفتر میں مختصر نشست کی، اس موقع پر ان کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کےلئے پیش ہے:

 
اسلام ٹائمز: موجودہ ملکی جمہوری صورتحال کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے؟
پروفیسر: پاکستان میں فوجی حکومتوں کا ہر تجریہ ناکامی سے دوچار ہوا ہے۔ ایوب خان کے مارشل لاء کے نتیجے میں ملک ٹوٹ گیا۔ ضیاءالحق کے مارشل لاء کے نتیجے میں ملک دہشتگردی، اسلحہ، اسمگلنگ، منشیات کے پھیلاؤ کا شکار ہوگیا و ... میرا خیال ہےکہ فوج نے اس حقیقت کا ادراک کیا ہے، خاص طور پر موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف صاحب اس بات کے شدید حامی ہیں کہ فوج کو سویلین معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیئے، لیکن چونکہ ہماری جمہوری حکومتوں کی کارکردگی بھی ایک بہت بڑا سوالیہ کا نشان ہے؛ ہمارے حکمران اور سیاستدان حضرات اربوں کھربوں کی کرپشن میں ملوث ہیں اور مزید کی تمنا کر رہے ہیں!! اس تناظر پر ایسی جمہوری حکومتوں پر کیسے اعتماد کیا جائے اور ملک کے سارے معاملات کیسے ان کرپٹ حکمرانوں اور حکومتوں کے حوالے کر دیئے جائیں؟ جب ایسی صورتحال ہو تو ظاہر سی بات ہےکہ فوج کو سویلین معاملات کے اندر بھی براہ راست نہیں تو بالواسطہ طریقے سے مداخلت کرنی پڑتی ہے، اسی باعث ابھی بھی داخلہ امور ہوں یا خارجہ امور، فوج کی مداخلت موجود ہے۔

اسلام ٹائمز: ملک کو کن مسائل سے دوچار سمجھتے ہیں؟
پروفیسر: اس وقت ملک میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہےکہ قانون کی عملداری کس طرح قائم کی جائے، دستور کی پاسداری کیسے ہو، دوسرا مسئلہ یہ کہ کرپشن کا زہر اوپر سے نیچے تک پھیل گیا ہے، اس پر کیسے قابو پایا جائے؟!

تیسرا مسئلہ یہ کہ کرپشن، نالائقی، حرام خوری، بددیانتی نے تمام اداروں کو تباہ کر دیا ہے۔ نہ پارلیمنٹ محفوظ ہے، نہ تعلیمی ادارے محفوظ ہیں، نہ تجارت گاہیں محفوظ ہیں، نہ عبادت گاہیں محفوظ ہیں، کچھ بھی محفوظ نہیں ہے!!

ہم اس وقت انحطاط، زوال اور غروب کی آخری منزل پر کھڑے ہیں۔


اسلام ٹائمز: ملک جن مسائل اور تباہی سے دوچار ہے، ان کا کیا حل پیش کریں گے؟
پروفیسر: آپ کے جواب کا میرے پاس سیاسی حوالے سے جواب تو یہ ہےکہ اس کا کوئی حل نہیں ہے، تباہی ہمارا مقدر ہے، لیکن آپ اس کا دینی و اخلاقی جواب چاہتے ہیں، تو وہ یہ کہ ہم سب کو اجتماعی توبہ اور اللہ کی طرف رجوع ہی کرنا ہوگا۔

ہم نے تقویٰ ظاہر میں سمجھ لیا ہے، جبکہ قلب ہمارا آلودہ ہے۔ اس کے اندر دنیا، دولت، جاہ، اولاد، ذات کی محبتیں بھری ہوئی ہیں، جس کے مظاہر یہ نظر آ رہے ہیں کہ پورے معاشرے کے اندر نفسا نفسی پھیلی ہوئی ہے، لوگوں کا ایک دوسرے سے تعلق ٹوٹ گیا ہے اور صرف مفاد کا تعلق رہ گیا ہے!!
ہمیں اس ملک کی تعلیم بھی ٹھیک کرنی ہوگی، حال یہ ہےکہ ملک میں پانچ قسم کے تعلیمی نظام موجود ہیں، مدرسے کی تعلیم الگ، اسکولوں کی تعلیم الگ و … اگر ملک میں یکساں تعلیمی نظام نہیں ہوگا، تعلیم ہی طبقات اور نظام کو جنم دےگی، تو ملک میں یکسانیت کیسے آئےگی؟!

ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان میں یکساں نظام تعلیم ہے، جیسے ہمارے ہاں سی ایس ایس کے امتحان ہیں، وہاں ایسے امتحان کو آپ ہندی اردو میں بھی دے سکتے ہیں، انگریزی بنگالی میں بھی دے سکتے ہیں۔ یہاں پاکستان میں آپ انگریزی کے علاوہ دوسری زبان استعمال کر ہی نہیں سکتے!! ملک کا پورا ڈھانچہ ناانصافی، ظلم، استحصال پر کھڑا ہوا ہے، پھر یہ کیسے ٹھیک ہوگا؟!!
آج اس ملک کے اندر ایک دیانتدار اور ایماندار آدمی کو مجرم بنا دیا گیا ہے، وہ اپنے گھر والوں کے سامنے مجرموں کی سی زندگی گزار رہا ہے، اس کے بیوی بچے دن رات اسے طعنے دیتے ہیں کہ آپ کی ایمانداری اور دیانتداری نے کیا دے دیا ہے ہمیں؟!!

آج کل کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ ذرائع آمدنی کیا ہیں، جائز ہیں یا ناجائز ہیں، حرام ہیں یا حلال ہیں، لہٰذا اب طریقہ یہ ہےکہ ہر ادارے، ہر محکمے میں ایماندار اور دیانتدار لوگوں کو تلاش کریں، ان کو ایوارڈز دیں، انہیں انعامات دیں، ان کی حوصلہ افزائی کریں، انہیں تکریم دیں، انہیں اختیارات دیں، انہیں سپورٹ کریں، تاکہ وہ معاشرے میں رول ماڈل بنیں، لیکن چونکہ حکمران ہی کرپٹ ہیں، لہٰذا یہ تجویز سنی ان سنی کر دی گئی۔

اسلام ٹائمز: آپ کی نظر میں ملک میں مثبت تبدیلی کیسے ممکن ہے؟
پروفیسر: ملک میں اگر تبدیلی لانی ہے تو سب سے پہلے ہر فرد کو اپنے آپ کو ٹھیک کرنا پڑےگا، فرد جب تک ٹھیک نہیں ہوگا، خاندان جب تک ٹھیک نہیں ہوگا، والدین اور اساتذہ جب تک ٹھیک نہیں ہونگے، اس وقت تک معاشرہ ٹھیک نہیں ہوگا۔

برنارڈ شاہ نے بہت ہی اچھی بات کی تھی کہ میں دوسروں کو اور دنیا کو نہیں بدل سکتا، لیکن میں اپنے آپ کو بدل تو سکتا ہوں، اگر میں اپنے آپ کو بدل لوں، تو میں یہ سمجھوں گا کہ میں نے دنیا سے ایک بدمعاش کو تو کم کر ہی دیا!!

جب میں ایماندار ہو جاؤں گا تو پھر میں کسی بے ایمان کو منتخب اور سپورٹ کر ہی نہیں سکتا۔ جب ہم ایماندار ہوں گے تو ایماندار لوگوں کو ہی سامنے لائیں گے۔ ہر معاشرہ بدلا ہے ایک آدمی سے، حضرت محمد [صلی اللہ علیہ وآلہ] ایک ہی تھے، امام خمینی [رحمت اللہ علیہ] ایک ہی تھے، انہوں نے پورے کا پورا معاشرہ بدل دیا، تو ایک آدمی پورے معاشرے کو بدل سکتا ہے، بشرطی کہ لوگوں کے اندر بھی بدلنے کی تبدیلی لانے کی خواہش ہو۔

 

ماخذ: http://islamtimes.org/ur

ای میل کریں