پروپیگنڈه

استعماری طاقتوں کے پروپیگنڈوں کا نتیجہ

استعماری طاقتوں کا اصل مقصد یہی ہے کہ اسلام گوشہ نشین ہوجائے

حضرت امام خمینی(ره)  دین اور سیاست کی جدائی کے نعرے کو استعماری طاقتوں  کے پر فریب پروپیگنڈوں  کا نتیجہ سمجھتے ہیں  جنہوں  نے کئی برس تک مکر و فریب کے ذریعے اسلامی معاشروں  کو نابودی کے دہانے پر پہنچا کر انہیں  اپنے راستے سے ہٹانے کے لئے کوششیں  بروئے کار لائیں  اور کچھ حد تک وہ اس میں  کامیاب بھی ہوئیں ۔ چنانچہ ابتدائی صدیوں  کے دوران بنی امیہ اور بنی عباس بھی اس طریقے سے کسی حد تک اپنے مقاصد کی تکمیل میں  کامیاب ہوئے تھے ۔ وہ فرماتے ہیں :

’’سیاست اور علمائے کرام کے درمیان جدائی پیدا کرنے کا منصوبہ نیا نہیں  ہے یہ منصوبہ بنی امیہ کے دور میں  بنایا گیا اور بنی عباس کے دور میں  سے تقویت ملی۔ ماضی قریب میں  جب سے (اسلامی) ممالک کی طرف اغیار کے ہاتھ بڑھے ہیں  انہوں  نے بھی اس بات کو اچھالا یہاں  تک کہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے بعض دیانتدار افراد اور فرض شناس علما بھی یقین کرنے لگے ہیں کہ سیاسی معاملات میں  ہاتھ ڈالنا علماء کے حق میں  بہتر نہیں  ہے۔ یہ استعمار کی اہم چالوں  میں  سے ایک ہے جس پر بعض لوگوں  نے یقین کر لیا ہے‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۱۶، ص ۲۴۸)

حضرت امام خمینی(ره)  کا یہ نظریہ تھا کہ اسلام دشمن طاقتوں  نے دین کو عبادات اور انفرادی معاملات تک اس لئے محدود کردیا ہے کہ ان باتوں  سے ان کے مادی مفادات کو کسی قسم کا نقصان نہیں  پہنچتا۔ انہوں  نے فرمایا ہے: ’’۔۔۔ عالم دین کو (صرف) مسجد میں  جا کر نماز پڑھنا چاہے، اسے طلبہ کو پڑھانا اور دینی علوم کی بحث و مباحثے میں  مشغول رہنا چاہئے اور  عوام کو شرعی آداب واطوار سکھانا چاہئے۔ انہوں  نے یہ دیکھا کہ علما کے نماز پڑھانے سے اور اسلام میں  بیان شدہ حکم نماز سے ان کو کسی قسم کا نقصان نہیں  پہنچتا ۔۔۔  (دشمن یہ چاہتے ہیں  کہ علما) تیل سے سروکار نہ رکھیں  اور وہ اس حد تک نماز میں  مشغول رہیں  کہ تھک جائیں  اور جہاں  تک ان کا دل چاہتا ہے طلبہ کو پڑھائیں  اور علمی بحث و مباحثہ بھی جتنا ہو سکے وہ کرلیں  (لیکن) اس بات سے سروکار نہ رکھیں  کہ استعماری پالیسیاں  یہاں  کیوں  نافذ ہورہی ہیں  اور (ان استعماریوں  کو کھلی چھٹی دے دیں  کہ ) جو ان کا جی چاہے وہ کریں ۔۔۔‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۲، ص ۱۶۳)

یعنی علما پڑھتے پڑھاتے رہیں ، تقریریں  کرتے رہیں  لیکن اگر وہ ان سے کوئی واسطہ نہ رکھیں  تو کوئی مسئلہ پیش نہیں  آئے گا۔ لیکن ایسے اسلام کے وجود کا کیا فائدہ ؟ اس لئے کہ جو دین اپنے پیروکاروں  کی تکالیف کو نہ سمجھے، ان کے لئے قدر و قیمت کا قائل نہ ہو اور اس کے اندر تحرک نہ ہو، اس کی کوئی اہمیت نہیں  ہے اور وہ ایسے جسم کی طرح ہے جس میں  جان نہ ہو یا ایسی کشتی کی مانند ہے جس کا ناخدا نہ ہو ۔ استعماری طاقتوں  کا اصل مقصد بھی یہی ہے کہ اسلام گوشہ نشین ہوجائے اور معاشرے کو اس سے علیحدہ کردیں ۔ قدرتی بات ہے کہ جب انہوں  نے کہا کہ دین میں  سیاست نہیں  ہوتی تو وہ یہ بھی کہیں  گے کہ سیاست علمائے کرام کو زیب نہیں  دیتی! امام خمینی(ره)  کا ارشاد ہے:

” (وہ کہتے ہیں  کہ ) ان (علما) کو سیاسی معاملات میں  مداخلت نہیں  کرنا چاہئے۔ یہ ان کو زیب نہیں  دیتا، بلکہ کچھ اور لوگ کہتے تھے کہ یہ ان کے تقدس کے منافی ہے ، اہل علم کے تقدس کے منافی ہے، حکومت اور سیاست میں  مداخلت کرنا (ان کی شان کے) خلاف ہے‘‘۔  (صحیفہ امام، ج۱۵، ص ۵۷)

ای میل کریں