ہجرت سے 13 سال قبل، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت، شرک و ناانصافی، نسلی و لسانی امتیازات، جہالت اور برائیوں سے نجات و فلاح کا نقطۂ آغاز کہی جا سکتی ہے اور صحیح معنوں میں خدا کے آخری نبی نے انبیائے سلف کی فراموش شدہ تعلیمات کو از سر نو زندہ و تابندہ کرکے عالم بشریت کو توحید و معنویت، عدل و انصاف اور عزت و کرامت کی طرف آگے بڑھایا ہے۔
رسالت مآب، ختمی مرتبت [ص] نے اپنے دلنشین پیغامات کے ذریعے انسانوں کو مخاطب کیا: "خبردار! خدا کے سوا کسی کی پرستش نہ کرنا اور کسی کو اس کا شریک قرار نہ دینا تاکہ تم کو نجات و فلاح حاصل ہو سکے"۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کی اس پر خلوص معنوی تبلیغ نے جہالت و خرافات کی دیواریں بڑی تیزی سے ڈھانا شروع کردیں اور لوگ جوق در جوق اسلام کے گرویدہ ہوتے چلے گئے۔
رسول رحمت[ص] خدا کی بعثت کا دن انسانی زندگی میں ایک عظيم انقلاب اور تجدید حیات شمار ہوتا ہے وہ انقلاب جو انہوں نے برپا کیا ہے انسان کو خود اپنے اور اپنے انجام دئے گئے برے اعمال کے خلاف جدوجہد پر آمادہ کرتا ہے اور جو بھی رسول اللہ کے روشنی بخش پیغامات کو سنتا ہے اپنی اور کائنات کی حقیقی شناخت پیدا کرلیتا ہے اور پھر خود کو ہی عدل و انصاف کی عدالت میں کھڑا پا کر اپنے وجود میں ایک نئے انسان کی تعمیر پر مجبور ہوجاتا ہے۔
قرآن کریم، سورہ انفال/۲۴ میں انبیاء(ع) کی بعثت کا فلسفہ، انسان کی تعلیم و تربیت، عدل و انصاف کی برقراری، تاریکیوں سے رہائی اور جبر و استبداد سے انسان کو آزادی دلانا بتایا گیا ہے۔
ارشاد ہوتا ہے: "اے ایمان لانے والو! خدا اور اس کے پیغمبر کی دعوت پر لبیک کہو وہ جب بھی تم کو اس پیغام کی طرف بلائیں جو تمہارے لئے سرچشمۂ حیات ہے۔
آج رسول اللہ کی بعثت کو صدیاں گزر چکی ہیں لیکن عصر حاضر کے ترقی یافتہ طاقتور انسانوں کو، پہلے سے بھی زیادہ پیغمبر اکرم [ص] کے پر امن پیغامات اور انسانیت آفریں تعلیمات کی ضرورت ہے۔
پیغمبر اسلام کی بعثت جو درحقیقت انسانوں کی بیداری اور علم و خرد کی شگوفائی کا دور ہے، آپ سب کو مبارک ہو۔