عالمی لٹیروں نے ان افراد اور گروہوں کے ذریعہ جو اسلامی ملت کے طبقوں میں نفوذ کرچکے تھے، سالہائے سال منصوبہ بندی کی، افسوس کہ وہ عمل میں آگئی اور اس نے اپنے برے نتائج قوم وملت پر مسلط کردئیے یعنی یہ کہ علماء کو چاہیے کہ وہ مسجد وحجرہ تک محدود اور لوگوں سے دور رہیں اور ان کا سارا کام یہ ہے کہ گھر سے مسجد اور مسجد سے گھر جائیں! انہیں چاہیے کہ معاشرے اور معاشرے سے متعلق چیزوں کی طرف توجہ نہ دیں، حد یہ ہے کہ ان کا ملک کے اجتماعی اور سیاسی امور میں حصہ لینا ایک ننگ وعار سمجھا جاتا تھا جو کہ عدالت اور وقار علماء کے خلاف تھا جو ان علماء کا کام صرف یہ تھا کہ وہ مدرسوں اور حجروں کے ایک گوشہ میں رہیں اور صرف پڑھتے رہیں، وہ بھی ایسی پڑھائی کہ جو نہ معاشرے سے متعلق ہو اور نہ ہی معاشرے کی سیاست سے یہاں تک کہ فوجی وردی ان چیزوں میں شمار ہوتی تھی کہ اگر کوئی عالم اس کو پہنتا تو اس کی عدالت ختم ہوجاتی۔ سیاسی امور میں حصہ لینے کو اس طرح تعبیر کیا گیا تھا کہ یہ علماء کی شأن کے خلاف ہے اور فلاں مولانا جو سیاسی ہیں، اب انہیں علماء کے زمرے میں نہیں آنا چاہیے!!
(صحیفہ امام،ج ۱۴، ص ۱۸۴)
اس طرح پروپیگنڈہ کیا گیا تھا کہ جب میں شروع میں قم آیا تو پہلے دوسرے سال وہاں کے حالات یہ تھے کہ ایک عالم دین جو سربراہ تھے لوگ ان پر لعن وطعن کرتے تھے کہتے تھے کہ اس کے گھر میں اخبار پائے جاتے ہیں! ایک عالم دین کے گھر میں اخبار ملنا عیب سمجھا جاتا تھا، فلاں عالم سیاسی ہے، لوگ یہ کہہ کر طعنہ دیتے تھے کہ فلاں عالم سیاسی ہے، علماء کو علیحدہ کردیا گیا، انہیں شخصی مسائل تک محدود کردیا گیا اور اجتماعی وسیاسی مسائل سے دور کردیا گیا، اس طرح پروپیگنڈہ کیا گیا تھا کہ اگر ایک عالم دین سیاسی امور میں حصہ لینا چاہتا تھا تو وہ اس بات سے ڈرتا تھا کہ لوگ اس پر لعن وطعن کریںگے اور اسے ایک طرف کردیا جائے گا۔
(صحیفہ امام، ج ۹، ص ۲۴۳)