امام خمینی (ره) کا اپنا ایک خاص فکری و اخلاقی نظام ہے اور آپ کی نظر فلسفی، کلامی اور انسان شناسی کے عمیق نظریات پر مبنی ہے۔ آپ ان موضوعات کی تحقیق بڑی باریک نگاہی کے ساتھ کرتے ہوئے عاقلانہ روش کے ساتھ بحث کرتے ہیں ۔ مثال کے طورپر آپ اقتدار اور اس کے خطرات کے متعلق (جو کہ نہایت ہولناک اور گمراہ کن ہیں) عہدیداروں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ہٹلر اس بات پر تیار تھا کہ تمام انسان فنا ہوجائیں اور جرمنی میں اقتدار اس کے پاس رہے! وہ برتر قوم کا تصور اور یہ چیز جو کہ ہٹلر کے دماغ میں تھی تم سب کے دماغ میں بھی ہے، خود تم نے غفلت کی ہے‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۱۴، ص ۳۷۹)
یہ تجزیہ کہ اقتدار انسان کیلئے خطرناک اور گمراہ کن ہے اور اگرا نسان طاقت کا احساس کرتا ہے تو سرکشی کرنے لگتا ہے، قرآن مجید کی تعلیمات میں بھی ہے: { اِنَّ الإنْسانَ لَیَطْغیٰ، اَنْ رآہُ اسْتَغْنیٰ} (سورۂ علق ؍۶،۷) “بے شک انسان سرکشی کرتا ہے کہ اپنے آپ کو بے نیاز خیال کرتا ہے‘‘۔ آپ طاقت کے خطرے پر عقلی تبصرہ کرتے ہوئے عہدید اروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’انسان ایسا ہے۔ تمام انسانوں کی روحی حالت ایسی ہے کہ جیسے ہی استغناء (بے نیازی) حاصل کرتا ہے، سرکشی کرنے لگتا ہے۔ (جتنا) مالی استغناء حاصل کرتا ہے، اسی قدر سرکشی کرتا ہے۔ (جتنا) علمی استغناء حاصل کرتا ہے، اسی قدر سرکشی کرتا ہے۔ (جتنا) مرتبہ اور عہدہ حاصل کرتا ہے، اسی قدر سرکشی کرتا ہے۔۔۔ اگر انسان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو وہ { اَنَا رَبُّکُمُ الأعْلیٰ}(سورۂ نازعات؍۲۴) “میں تمہارا ربّ اعلیٰ ہوں‘‘ کہنے لگے گا۔۔۔ وہ تمام اختلافات جو انسانوں کے درمیان پائے جاتے ہیں ۔
اس وجہ سے ہیں کہ انہوں نے اپنے نفوس کا تزکیہ نہیں کیا ہے۔۔۔ جس نے اپنا تزکیہ کرلیا وہ کبھی اپنے کو مستغنی نہیں سمجھتا‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۱۴، ص ۳۸۹)
حکومت اور لوگوں کے مقام کی تشریح میں بھی یہ عقلیت پسندی نظر آتی ہے۔ آپ نے دو حقیقتوں پر توجہ دی ہے:
۱۔ ’’حاکم کی عدالت کافی نہیں ہے، بسا اوقات انسان عدالت کے باوجود غلطی کرتا ہے، پھسل جاتا ہے اور حق کے راستے سے ہٹ جاتا ہے، لہذا عوام ہی حاکم کی روش کی نگرانی کرتے ہیں اور اس کے کاموں کا فیصلہ کرتے ہیں ‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۵، ص ۴۰۹)
۲۔ حکومت لوگوں کیلئے ہے۔ اگر عوام کسی کام سے راضی نہ ہوں تو حکومت کی کوشش کا کوئی فائدہ ہیں ہے، لہذا عوام کی خوشنودی حاصل کرنی چاہیے۔ حکومت کی افادیت لوگوں سے ہے، اگر لوگ حکومت کے پشت پناہ نہ ہوں تو کام آگے نہیں بڑھیں گے۔
ایک رپورٹر نے آپ سے سوال کیا: جمہوریت سے آپ کی مراد کیا ہے؟ تو آپ نے اس کا جواب دیا: ’’جمہوریت اسی معنی میں ہے کہ جس معنی میں یہ ہر جگہ ہے، لیکن یہ جمہوریت ایک آئین پر قائم ہے جو کہ قانون اسلام ہے‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۴، ص ۴۷۹)
دوسری جگہ آپ کہتے ہیں :
’’ایک قوم نے اگر کوئی چیز چاہی تو اس پر مسلط نہیں کیا جاسکتا، ایک گروہ، ایک جماعت وغیرہ پر مسلط کیا جاسکتا ہے لیکن ایک قوم پر کوئی چیز مسلط نہیں کی جا سکتی ہے‘‘(صحیفہ امام، ج ۱۸، ص ۱۴۱)