مختصر تعارف: کریسٹین بونو کا تعلق فرانس سے ہے۔ آپ، مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد اپنے لئے "یحیی بونو" کا نام منتخب کیا اور حال حاضر میں فرانس کے مسلمان متفکرین میں شمار کیا جاتا ہے۔
حوزہ علمیہ کے استاتذہ منجملہ امام خمینی(رح) کے شاگرد آیت اللہ آشتیانی کے حضور فلسفہ پڑھا اور اپنا پی ایچ ڈی فرانس کی’’ سوربن ‘‘یونیورسٹی سے فلسفہ اور عرفان امام خمینی(رح) کے عنوان سے حاصل کیا ہے۔
حریم: ابتدا فرمائیں کہ کس طرح آپ نے فلسفہ پڑھنے کےلئے ایران کو انتخاب کیا؟
یحیی بونو: یہ سوال تقریباً میری پوری زندگی سے مربوط ہے۔ کیوںکہ فلسفہ اور اپنے لئے نیا نام انتخاب کرنا، میرے مسلمان ہونے سے پہلے ساتھ ساتھ تھے۔ میں اسکول کے زمانے سے کسی چیز کی تلاش میں تھا، اس بات سے سخت ناراض تھا کہ ہم صرف کسی اچھی روزگار، مادی زندگی کےلئے پڑھتے ہیں۔ میں مغرب کے اس خیالی پروگرام سے بالکل خوش نہیں تھا۔
یورپ میں شرقی ادیان میں سے ’’ بودیزم‘‘ اور ’’ہندوئیزم‘‘ رائج تھا اور یورپ والے اسی آئین کے پیچھے اور تلاش میں ہیں۔ ان کی طرح میں بھی تھا، مشرق کے فلسفہ سے بودیزم کے توسط سے آشنا ہوا۔ جہاں سے فلسفہ کا موضوع ماورائے طبیعت، اس دنیا سے اہم تر اور پایدار تر جہاں کی تلاش ہے، میرا تکڑاو ’’ اوونہ گینو ‘‘ نامی فلیسوف جو استعمار کے عروج اور پہلی عالمی جنگ سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوا اور سنہ (۱۹۵۱ع) میں وفات پایا۔ موصوف نے اسلام، فلسفہ اور عرفان کے بارے میں بہت سی کتابیں لکھیں ہیں اور میں نے ان کی تمام کتابیں پڑھنے کے بعد اسلام قبول کیا اور عربی زبان سیکھنے کا پختہ ارادہ کیا۔
حریم: مذہب تشیع کب اور کیسے قبول کیا؟
یحیی بونو: مسلمان ہونے کے بعد پڑھنے کےلئے نکلا، اس وقت تک مجھے شیعہ، سنی اور مابین کے اختلافات کے بارے میں بالکل کچھ خبر نہیں تھا۔ مسلمان ہونے کے پہلے سال، اُستاد مطہری کی کتابوں سے آشنا ہوا، اس طرح تشیع کے بارے میں مزید معلومات حاصل کیا، یہاں سے میں نے جانا کہ پہلے میں سنی تھا۔ یوں فلسفہ اور عرفان سے بہت لگاو پیدا ہوا۔ میرے بڑے اساتذہ میں سے بعض مملکت مالی اور سیاہ افریقہ سے تھے، اس کے باوجود کہ ان کا تعلق گروہ تیجانی سے تھا، لیکن درحقیقت شیعہ تھے، تشیع کا خفیہ طور پر تبلیغ کرتے تھے۔ ان میں سے کسی نے مجھے اپنے رشتہ داروں کے ذریعے مجھے مذہب تشیع انتخاب کرنے کی سفارش کی۔ اسلام لانے کے ایک سال بعد میں مذہب تشیع اختیار کیا۔
حریم : کب اور کیسے حضرت امام(رح) سے آشنا ہوئے؟
جب پڑھائی آگے بڑھی، عربی زبان ہر اچھا عبور ملا اور عربی کی بنیادی کتابیں خود پڑھنے اور سمجھنے لگا، پہلی مرتبہ لبنان میں کسی دوست کی کتاب فروشی پر حضرت امام کی ’’مصباح الہدایۃ‘‘ اور دیگر کتاب پر نظر پڑھی۔ دکان میں ہی کتاب کھولا اور کتاب کے مضامین ابن عربی کے کلمات کی شرح دیکھ کر مجھے بہت تعجب ہوا، عصر حاضر میں اور گذشتہ سالوں میں یہاں تک کہ ابن عربی کے شاگردوں تک کتابِ ہذا کو مضبوط ترین کلام پایا۔
حریم امام: ۱۵بہمن ۱۳۹۴، ش ۲۰۵
جاری ہے