عید یعنی بازگشت یعنی پلٹنا ہے، شرع اقدس نے یوم عید کو خوش حالی کا دن قرار دیا ہے اگر اللہ تعالی کی یاد اور معصومین علیہم السلام سے بستہ عہد سے ہم غافل نہ ہوں۔ مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا: "کلُّ یومٍ لا یُعصیٰ اللہُ فیه فهو یومُ عیدٌ"، ہر وہ دن جس میں اللہ کی معصیت نہ کی جائے، عید کا دن ہے"۔
وہ ایام جن کو عید سے موسوم کیا جاتا ہے، "عید نوروز" ہے کہ جو ظاہری طبیعت کی بہار و شکوفائی اور رنگ و بو کی دلپذیر تبدیلی کے علاوہ معنوی اور روحانی رنگ و بو کو بهی اپنے ہمراہ لئے ہوئے ہے۔
معلی بن خنیس نقل کرتا ہے: میں نو روز کے دن حضرت امام جعفر الصادق علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا، حضرت نے فرمایا: کیا تم اس دن کو جانتے ہو؟
میں نے عرض کیا: قربان جاؤں! آج وہ دن ہے جس کی اہل عجم تعظیم کرتے ہیں اور اس دن ایک دوسرے کو تحفہ و تحائف دیتے ہیں۔
امام صادق (ع) نے فرمایا:
اے معلی! نو روز کا دن، وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ نے روز الست، تمام ارواح سے اپنی وحدانیت کا عہد و پیمان لیا کہ عبودیت و عبادت میں کسی کو اس کا شریک نہیں بنائیں گے،
اس کے بهیجے ہوئے پیغمبروں اور ائمہ معصومین(ع) پر ایمان لائیں گے،
نو روز، وہ پہلا دن ہے، جب سورج طلوع ہوا،
درختوں کو ثمرآور کرنے والی ہوائیں چلائی گئیں،
زمین پر پهول اور کلیاں چٹکنے (کهلنے) لگیں،
آج ہی کے دن حضرت نوح(ع) کی کشتی، کوہ جودی پر ٹهہری،
جبرئیل(ع)، پیغمبر اکرم(ص) پر نازل ہوا اور ان کو تبلیغ دین پر مامور کیا،
حضرت ابراهیم(ع) نے بتوں کو توڑا،
پیغمبر نے اپنے اصحاب کو امیر المؤمنین علی(ع) کی بیعت کا حکم دیا، [یعنی روز عید غدیر]،
خلافت ظاہری، حضرت علی(ع) کی طرف پلٹ آئی،
حضرت علی(ع) نے خوارج کے ساتھ جنگ کی،
اور اسی دن قائم آل محمد امام زمانہ(عج) ظہور فرمائیں گے،
اس دن کو عجم والوں نے حفظ کیا ہے اور اس کی حرمت کی رعایت کی ہے، اور تم نے اس کو ضائع کردیا ہے۔
[[ زاد المعاد، علامہ محمد باقر مجلسی، ص523؛ نیز جواہر الکلام، ج1 اغسال مستحبہ]]۔
اعمال عید نوروز حدیث کی روشنی میں:
معلی ابن خنیس، امام جعفر صادق(ع) سے نقل کرتا ہے کہ امام نے نوروز کے دن کے بارے میں فرمایا:
امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا: جب نو روز کا دن ہو، پس تم غسل کرو اور اپنے پاکیزہ لباس کو زیب تن کرو، اور اپنے آپ کو بہترین خوشبو سے معطّر کرو، اور اس دن روزہ بهی رکهو، اور جب نماز نافلہ و فریضہ ظہر و عصر سے فارغ ہوجاؤ، تو اس کے بعد چار رکعت (دو دو رکعتی) نماز پڑهو، پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد دس مرتبہ ﴿إِنَّا أَنزَلْنَاهُ﴾ اور دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد دس مرتبہ ﴿قُلْ یَا أَیُّهَا الْکَافِرُونَ﴾ پڑهو۔
اور تیسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد دس مرتبہ سورۂ توحید، اور چوتهی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد دس مرتبہ معوّذتین پڑهو، اور دونوں نمازیں پڑهنے کے بعد سجدۂ شکر بجا لاؤ، اور سجدے میں اللہ رب العزت سے جو چاہو مانگو، اس عمل سے تمهارے پچاس سال کے گناہ بخش دیئے جائیں گے"۔
[[ مصباح المتهجد، شیخ ابوجعفر محمد ابن الحسن الطوسی، ص591]]
عید نوروز
باد نو روز سے سرمست ہیں کوہ و صحرا
زیب تن عید کی پوشاک کریں شاہ و گدا
بلبل سدرہ نشیں بھی نہیں پہونچا اس تک
اسی مطرب پہ میں نازاں ہوں جو ہے قبلہ نما
صوفیا و عرفا نے نہیں دیکھا وہ دشت
دست مطرب سے ملے مے، تو ملے راہ صفا
جائیں سب دشت میں یا سوئے چمن عید کے دن
میکدے ہی میں لگاؤں گا میں رخ سوئے خدا
شاہ و درویش کو نو روز مبارک ہو، مگر
یار دلدار کرے آکے در میکدہ وا
گر در پیر خرابات کا رستہ مل جائے
سر کے بل طے کروں یہ راہ میں قدموں کی جگہ
نہ ملا اس کا پتہ، ٹھو کریں کھائیں برسوں
اہل دستار کی صف میں بھی نہ کچھ ہاتھ آیا
[[ دیوان امام، منظوم اردو ترجمہ]]
التماس دعا