جہاد

جہاد میں تجلی رحمت

اگر دنیا میں فتنہ نہ ہوتو پوری دنیا میں سکون ہوگا

حضرت رسول اکرؐم کی جنگیں رحمت ہونے کے اعتبار سے آپؑ کے نصائح سے کم نہیں  تھیں ۔ وہ لوگ جو خیال کرتے ہیں  کہ اسلام نے نہیں  کہا ہے’’ کامیابی تک جنگ جنگ‘‘ اگر اس سے ان کی مراد یہ کہ قرآن میں  یہ عبارت نہیں  ہے۔ تو وہ صحیح کہتے ہیں ۔ لیکن اگر ان کی مراد یہ ہو کہ خدا نے اس سے بڑھ کر نہیں  فرمایا ہے تو غلط کہتے ہیں ۔ کیونکہ قرآن کا ارشاد ہے: { قَاتلُوْہُمْ حَتّٰی ٰلا تَکُوْن فِتْنَۃ }( کافروں  سے جہاد کرو تا کہ روے زمین سے فتنہ و فساد مٹ جائے۔(بقرہ؍۱۹۳)۔ )  ، قرآن سارے انسانوں  کو فتنہ ختم کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یعنی جنگ جنگ دنیا سے فتنہ ختم ہونے تک یہ ہم جو کہتے ہیں  اس سے الگ ایک بات ہے۔ ہم نے تو ایک چھوٹی سی بات لی ہے۔

کیونکہ ہم اس عظیم دائرہ کے اندر ایک بہت چھوٹے سے دائرے میں  واقع ہیں ۔ اس لئے کہتے ہیں ’’ فتح تک جنگ‘‘ اس سے ہمارا مقصد صدام کے کفر پر غلبہ ہے یا فرض کریں  کہ اس سے بالاتر ایک فتح ہے۔ وہ چیز جو قرآن بتا رہا وہ یہ ہیں  ۔ قرآن کہتا ہے کہ دنیا سے فتنہ کے خاتمے تک جنگ کرو یعنی وہ لوگ جو قرآن کی پیروی کرتے ہیں  ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ جہاں  تک ان کی طاقت ہے جنگ جاری رکھیں ۔ یہاں  تک کہ دنیا سے فتنہ ختم ہوجائے۔ یہ دنیا کے لئے ایک رحمت ہے، اور ایک حمت ہے ہرقوم کے لئے، جس ملک میں  وہ رہ رہی ہے۔ پیغمبر اکرؐم کی جنگیں  دنیا کے لئے رحمت تھیں  ، یہاں  تک کہ کافروں  کے لئے بھی رحمت تھیں ۔ دنیا کے لئے اس لئے رحمت تھیں  اگر دنیا میں  فتنہ نہ ہوتو پوری دنیا میں  سکون ہوگا۔ چنانچہ وہ لوگ جو غرور و تکبر کرتے ہیں  جنگ کے ذریعہ ان کو سدھارا جائے تو یہ اس قوم کے لئے رحمت ہے جس پر اس مستکبر نے غلبہ پایا ہے ۔

صحیفہ امام، ج۱۹، ص ۱۱۲ ۔ ۱۱۳ ۔

ای میل کریں