رسول اسلام (ص) نے دین میں سیاست کی بنیاد رکھی، حکومت تشکیل دی اور سیاسی مراکز قائم کئے۔ تمام خلفاء نے بھی صدر اسلام میں جب تک انحراف پیدا نہیں ہوا ان سب کا انکار کردیں۔ یہ درباری مولوی پیغمبر اسلام (ص) اور خلفائے اسلام کو مسترد کردیں اور کہیں کہ وہ مسلمان نہیں تھے، کیونکہ انہوں نے سیاست میں حصہ لیا!
صدر اسلام میں ایک عالمی سیاست تھی، پیغمبر اسلام (ص) نے پورے عالم کی طرف متوجہ ہو کر سب کو اسلام کی طرف دعوت دی، لوگوں کو اسلامی سیاست کی طرف دعوت دے کر حکومت بنائی، اسی طرح بعد والے خلفا نے حکومت بنائی، صدر اسلام سے لے کر زمانہ رسول ؐ سے لے کر اس وقت تک انحراف وجود میں نہیں آیا دین اور سیاست ایک ساتھ رہے، پس اب یہ درباری ملّا اور امریکی وروسی پٹھو پیغمبر اسلام ؐ ودیگر انبیاء ؑاور آپ ؐکے خلفا کو خطا کار ٹھہرائیں یا اپنے آپ کو خطاکار، اپنی حکومت کو ناجائز ٹھہرائیں۔ ان دو باتوں میں سے ایک ہے، اس کے علاوہ نہیں۔یہ نہیں ہوسکتا کہ مکہ [کے حکام کی] منطق کہ جو ہماری سیاست کو غلط قرار دیتی ہے اور مسلمانوں کو ظالم وستمگر سامراجی طاقتوں کے خلاف آواز بلند کرنے سے روکتی ہے اور دوسرے شہروں میں رہنے والے درباری ملّا، درباری امام [اگر ان کے درمیان ہوں] اور درباری امام جماعت دو راہے پر کھڑے ہیں جسے چاہیں اختیار کرلیں یا اختیار کریں کہ پیغمبر اسلام ؐ اور ان کے بعد خلفا اور صدر اسلام کے اصحاب اور ان سے متعلق افراد سمیت مسلمان حکام مسلمان نہیں تھے یا پھر اقرار کریں کہ یہ خود اور ان کے ممالک کی حکومیتں مسلمان نہیں ہیں۔
البتہ یہ دونوں باتیں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتیں۔ سب اس دو راہے پر ہیں اور مسلمانوں کی یہی مشکل ہے کہ ان کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی گئی اور پروپیگنڈہ کہ علماء کو چاہیے کہ مدرسوں ومسجدوں کے گوشہ میں بعض اسلامی مسائل بیان کریں نہ کہ سب مسائل، اصل مطلب یہی ہے کہ اسلام سیاسی دین ہے اور سیاست کے ہر پہلو اور ملتوں کے اجتماعی واقتصادی اور ثقافتی مسائل نیز دیگر سب چیزوں اور سب لوگوں کے ساتھ ہے یا یہ کہ اسلام کو ہر ایک سے دور رہنا چاہیے اور صدر اسلام میں جنہوں نے حکومت تشکیل دی وہ سب غلطی پر تھے۔
صحیفہ امام،ج ۱۷، ص ۲۰۴