کئی مرتبہ کچھ لوگوں نے امام ؒ کی خدمت میں جا کر یہ کہا کہ جو لوگ مکہ جاتے ہیں وہ عام طورپر آپ کے مقلدین اور آپ کے عقیدتمندوں میں ہیں وہ چاہتے ہیں کہ شرعی رقوم آپ کے سپرد کریں ، لہذا ضروری ہے کہ ہر سال کسی کو مکہ بھیج دیا جائے۔ لیکن امام نہیں مانتے تھے۔ بعض چاہتے تھے کہ شہید مصطفی ؒ کو اس کام کیلئے مکہ بھیج دیا جائے۔ لیکن امام راضی نہیں ہوتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک سال شہید مصطفی نے مجھ سے کہا کہ امام کی جانب سے مکہ جاؤں اور امام کے وکیل کی حیثیت سے شرعیہ رقوم لوگوں سے جمع کروں ۔ جب امام ؒ سے خدا حافظ کہنے کیلئے ان کی خدمت میں گیا تو آپ نے مجھ ایک ایسی بات کہی جو میرے لیے ایک بڑی نصیحت تھی۔ امام ؒ نے فرمایا: ’’میں اپنی ساری عمر پیسوں کے پیچھے نہیں گیا۔ چاہتا ہوں کہ میرے دوست بھی ایسے ہی ہوں ‘‘، چونکہ امام ؒنے سنا تھا کہ بعض دفعہ کوئی تاجر آتا ہے تو کچھ لوگ اس کے پیچھے جاتے ہیں یا اس کی تلاش میں آدمی بھیجتے ہیں تاکہ وہ ان سے شرعی رقوم کا مطالبہ کرے۔ اس کے بعد مجھ سے فرمایا: ’’کسی وقت بھی میں تمہیں کاروانوں کے بیچ نہیں دیکھنا چاہتا، بلکہ کوئی ضرورت نہیں کسی سے ملنے کیلئے کاروان میں جانے کی، کیونکہ تم میرے وکیل ہو۔ ممکن ہے کچھ لوگ یہ تصور کریں کہ تم لوگوں سے شرعیہ رقوم جمع کرنے کیلئے ان کے پاس گئے ہو۔ صرف یہ کہ اگر کوئی مسئلہ پوچھنے آئے تو اس کو مسئلہ بتا دینا۔ ہاں ! اگر کوئی خود سے پیسہ دینا چاہے تو تم اس کا انکار نہ کرو اس سے وہ پیسہ لے لو۔ میں بالکل راضی نہیں ہوں کہ تم میرے لیے پیسہ جمع کرنے کیلئے ہاتھ پاؤں مارو۔ رہنے دو کہ لوگ جس طرح اپنے اپنے اعتبار سے شرعی رقوم دینا چاہتے ہیں وہ دیں ۔ تم اپنی جگہ پر رہو جو بھی شرعی رقوم دینا چاہے وہ خود تمہارے پاس آئے‘‘۔