جنگ کے دوران ایک دفعہ جزیرہ خارک اور وہاں پر واقع تیل کی تنصیبات پر دشمن کی طرف سے پے در پے بمباری ہو رہی تھی۔ میں اور میرے ساتھ امام ؒکے دفتر کے چند افراد جزیرہ خارک گئے۔ جب ہم جزیرہ پہنچے، دوستوں نے حسب معمول حالات کے پیش نظر ہم سے کہا کہ جس جگہ پہنچے ہیں وہیں رکے رہیں ۔ کیونکہ وہ وقت ایسا تھا کہ معمولاً دشمن کے ہوائی جہاز حملے کیلئے آ رہے تھے۔ لہذا ان کے واپس ہوجانے تک ٹھہرے رہیں ۔ ہم نے یہ بات نہیں مانی اور فوراً کشتیاں دیکھنے کیلئے چل پڑے۔
ہم کشتی پر تھے کہ میگ ۲۹ جہاز حملہ کیلئے آگئے اور جزیرہ پر پانچ سو کلو کے ۱۸ بم گرانا شروع کردئیے۔ کچھ بم پانی میں گرے اور باقی جزیرہ کے اطراف میں گرے۔ کوئی ایک بھی کشتی پر نہ گرا۔ لیکن اتفاقاً ایک بم اس بلڈنگ پہ جا گرا جہاں پر ہمیں محفوظ رہنے کی غرض سے رکنے کیلئے کہا گیا تھا۔
بہر حال ہم نے نزدیک سے حالت کا مشاہدہ کیا اور شب جمعہ واپس آگئے۔ جمعہ کی صبح امام معمولاً ۸ بجے کی خبروں کا خلاصہ سننے کے بعد باتھ روم جاتے تھے۔ جب ان سے عرض کیا کہ ہم لوگ جزیرہ خارک گئے تھے تو امام خمینی ؒ بیٹھ گئے۔ میں نے رپورٹ پیش کی اور وہاں پر تعینات ذمہ دار افراد کا پیغام بھی امام کی خدمت میں پہنچا دیا۔ انہوں نے کہا تھا: یقینی طورپر ان حالات کے تحت تو دو دن کیلئے تیل کی سپلائی اور پیداوار کا سلسلہ منقطع ہوجائے گا۔ جنگ کے ان نازک مراحل اور کرنسی کی مشکلات کے دوران سب سے بڑی پریشانی یہی تھی۔
امام ؒنے پوری توجہ سے میرے عرائض سنے اور آخر میں میرے تصور سے بالاتر ایک غیر معمولی سکون کی حالت میں دعا کی۔ ایسا سکون جس کا سرچشمہ ایمان اور خدا سے رابطہ تھا۔ جو ماضی سے لے کر جنگ کے خاتمے تک تیل کی پیداوار کے جاری رہنے کا ذریعہ تھا کہ دشمن کے اتنے سارے دباؤ کے بر خلاف ہمارے لیے ثابت ہوا کہ اگرچہ امام جزیرہ میں موجود نہیں تھے لیکن جو لوگ جزیرہ میں موجود تھے ان سے زیادہ حالات اور مستقبل کے نتیجے سے آگاہ تھے۔