سنہ ۵۷ ھ ش (۱۹۷۸ء) میں جب امام ؒعراق سے ہجرت کرنے لگے، مختلف امن وامان کے پیش نظر یہ خبر مخفی رہنی چاہیے تھی۔ اسی وجہ سے ہم وہاں کچھ بحران کے دن گزار رہے تھے۔ آخری رات کو طے ہوا کہ امام کے ساتھ ان کے کچھ خاص احباب بھی جائیں گے۔ میں تو بہت پریشان تھی۔ نیند اڑ چکی تھی۔ باربار اٹھتی بیٹھی تھی۔ میں نے دیکھا کہ آغا بھی جو معمولاً اس ٹائم پر نماز شب کیلئے بیدار ہوتے تھے، بیٹھے ہیں ۔ جب انہوں نے دیکھا کہ میں جگ رہی ہوں تو بہت نرمی سے مجھ سے کہا: ’’سوجا‘‘ سحر کے وقت امام کے روانہ ہونے کا وقت تھا۔ سارے گھر والوں کی ایک عجیب کیفیت تھی۔ سب کے سانس سینوں میں رک چکے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ گھر میں کوئی بھی نہیں ہے۔ ان حالات میں جو شخص پر سکون ومطمئن نظر آ رہا تھا، وہ تنہا امام کی ذات تھی۔ انہوں نے ہم کو خدا حافظ کہا اور بھائی کے ساتھ روانہ ہوگئے۔