جن دنوں اسلامی انقلاب کامیابی کے مراحل طے کر رہا تھا اور ہم امام کے پاس موجود تھے۔ امام کے صفات اور ان کے روحانی کمالات نے ہم سب کو حیران کردیا تھا۔ خاص کر اس روز امام ؒکے پر سکون انداز کو میں ہرگز بھلا نہیں سکتا۔ فوجی ایمرجنسی جیسا ماحول تھا۔ ۲۱ بہمن (۱۱ فروری) کو سہ پہر کے ساڑھے چار بج رہے تھے اور ہم امام کی خدمت میں حاضر تھے۔ ہم سب کے دل گھبراہٹ کی وجہ سے بہت زور سے دہڑک رہے تھے۔ لیکن امام ؒ یوں باوقار انداز میں نظر آ رہے تھے کہ گویا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ جبکہ ہاتھ میں قلم لیے ایمرجنسی کے نفاذ کو توڑنے کا پیغام لکھ رہے تھے۔ ایسے میں پوچھا کہ ’’مدرسے کا دروازہ کھلا ہے یا بند؟‘‘جیسے ہم نے کہا کہ اس احتمال کے پیش نظر کہ کوئی خطرہ لاحق نہ ہوجائے، مدرسے کا دروازہ بند کروا دیا گیا ہے۔ امام ؒ نے فوراً کہا: ’’دروازہ کھول دیا جائے کہ لوگوں کی آمد ورفت رہے‘‘۔
اگلی رات کو ۲۲ بہمن (۱۲ فروری) تھی۔ احتمال تھا کہ مارشلا لگ جائے گا اور بمباری ہوگی۔ لہذا ہم لوگوں نے امام ؒکو مدرسہ ترک کرنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ فی الحال کسی اور جگہ قیام کریں ۔ امام ؒ پورے اطمینان سے ہمیں یہ جواب دیا کہ: ’’جو ڈرتا ہے وہ جائے۔ میں تو یہیں رہوں گا‘‘۔