مرد شامی نے امام مجتبی(ع) سے کہا: "اللهُ یَعلَمُ حَیثُ یَجعَلُ رِسَالَتَهُ"

مرد شامی نے امام مجتبی(ع) سے کہا: "اللهُ یَعلَمُ حَیثُ یَجعَلُ رِسَالَتَهُ"

امام خمینی(رہ) کہا کرتے تھے: میں معتقد ہوں کہ یہ بات جھوٹ ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف نسبت دی گئی ہے۔ یہ بات حضرت عیسی علیہ السلام کی نہیں ہو سکتی ہے۔ لہذا ہم محبت کو اسلام سے نہیں نکال سکتے اور نہ ہی اسلام کو فقط تشدد والا دین کہہ سکتے ہیں۔

سوال: برائے مہربانی، سبط اکبر امام حسن مجتبیٰ(ع) کے بعض معروف صفات، مثلا کریم اہلبیت(ع) ہونے کے بارے میں وضاحت دیجئے۔

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اہلبیت اطہار(ع) کی زندگانی کے سلسلے میں دو طرح سے گفتگو کی جا سکتی ہے۔ ایک یہ کہ ان کی بائیوگرافی پیش کی جائے یعنی ان کی تاریخ ولادت، تاریخ وفات، ازواج کی تعداد، اولاد کی تعداد، خلفائے وقت وغیرہ وغیرہ بیان کئےجائیں۔

دوسرے یہ کہ قرآنی طرز سے گفتگو کی جائے۔ قرآنی طرز یہ ہے: « لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ‌اللهِ اُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن کَانَ یَرجُوا اللهَ وَ الیَومَ الآخِرَ» یعنی ہم انہیں نمونہ عمل کے عنوان سے پیش کریں۔

میری نظر میں اہلبیت(ع) کی زندگی کے بارے میں گفتگو کرتے وقت جس چیز کو پیش کرنے کی ضرورت ہے اور جو معرفت کا باعث ہے، وہ روایت میں آیا ہے: "من مات و لم یعرف امام زمانه مات میتة جاهلیة " جو شخص مر جائے اور اپنے زمانے کے امام کی معرفت نہ رکھتا ہو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔

تمام اہلبیت اطہار(ع) فضائل کی کلیات میں یکساں ہیں۔ مثلاً عبادت میں سب کے سب پہلی صف میں نظر آتے ہیں۔ اہلبیت(ع) کی نماز حقیقت میں ’’قربان کل تقی‘‘ اور ’’معراج‘‘ ہوتی تھی۔ اہلبیت اطہار(ع) جب لبیک کہتے تھے تو خود کو بارگاہ خداوندی میں پاتے تھے۔

امام حسن(ع) کے بارے لکھا گیا ہے کہ ایک شامی امام حسن(ع) کو گالیاں دینا شروع کر دیتا ہے جب گالیاں دے کر تھکتا ہے اور خاموش ہو جاتا ہے تو امام علیہ السلام اس سے فرماتے ہیں: مجھے لگ رہا ہےکہ تم سفر سے آئے ہو شاید تمہارے پاس رہنے کے لیے جگہ نہیں ہوگی کھانے کے لیے آذوقہ نہیں ہوگا، تو آو میرے گھر چلو، میں رہنے کے لیے جگہ دوں گا، کھانا دوں گا!! شامی نے گالیاں دیں لیکن امام نے اس کے ساتھ کیسا برتاو کیا؟ امام کی اس رفتار نے اس قدر اسے متاثر کیا کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گیا: "اللهُ یَعلَمُ حَیثُ یَجعَلُ رِسَالَتَهُ".

 

سوال: پس ائمہ اطہار(ع) کو ’’ایک پہلو‘‘ نگاہ سے دیکھنا صحیح نہیں ہے؟

سید احمد خاتمی: دیکھئے امام حسن(ع) کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے لوگ آپ کی شجاعت کے پہلو کو کم رنگ کر دیتے ہیں جبکہ وہی خون جو امام حسین(ع) کی رگوں میں تھا وہی خون امام حسن(ع) کی رگوں میں بھی تھا، وہی خون امیر المومنین(ع) کی رگوں میں بھی دوڑ رہا تھا۔ مثال کے طور پر جنگ صفین میں امام حسن اور امام حسین علیہما السلام دونوں نے فرنٹ لائن پر جنگ لڑی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جتنی شجاعت امام حسین(ع) میں تھی اتنی ہی امام حسن(ع) میں تھی۔ لہذا کوئی ایسی فضیلت نہیں ہے جو ایک امام میں پائی جاتی ہو اور دوسرے میں نہ پائی جاتی ہو۔

ائمہ معصومین(ع) کے سلسلے میں بعض خاص القاب خود پیغمبر اکرم(ص) نے انہیں دئے، بعض لوگوں کے درمیان معروف ہو گئے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ امام حسن(ع) کریم تھے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ باقی ائمہ(ع) کریم نہیں تھے۔ بلکہ یہ امام حسن(ع) کی ایک علامت ہے ورنہ تمام ائمہ(ع) تمام فضائل میں یکساں ہیں۔

 

سوال: شاید یہی ایک پہلو نگاہ، اس بات کا باعث بنا ہے کہ آج دوسرے ادیان مثلا عیسائیت او بدھ مت کو محبت والے دین اور دین اسلام کو تشدد والا دین کہا جاتا ہے؟

سید احمد خاتمی: اسلام اعتدال پسند دین ہے ہرگز جو چیز حضرت عیسی(ع) کی طرف غلط نسبت دی جاتی کہ ’’اگر تمہارے ایک رخسار پر کوئی طمانچہ مارے تو تم دوسرا رخسار بھی اس کے سامنے رکھو‘‘ کو دین اسلام بلکہ ادیان آسمانی قبول نہیں کرتا اور یہ بات قرآنی تعلیمات سے بھی ہم آہنگی نہیں رکھتی۔ بلکہ اسے ذلت کہا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بانی اسلامی جمہوریہ ایران امام خمینی(رہ) کہا کرتے تھے: میں معتقد ہوں کہ یہ بات جھوٹ ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف نسبت دی گئی ہے۔ یہ بات حضرت عیسی علیہ السلام کی نہیں ہو سکتی ہے۔ لہذا ہم محبت کو اسلام سے نہیں نکال سکتے اور نہ ہی اسلام کو فقط تشدد والا دین کہہ سکتے ہیں۔

اس بات کی طرف توجہ رہے کہ جس طرح صرف تشدد کی بات کرنا افراط ہے اسی طرح فقط محبت کی بات کرنا بھی افراط ہے۔ دونوں کے بارے میں برابر گفتگو ہونا چاہیے۔ ہمیں اس جال میں نہیں پھنسنا چاہیے جو مغربیوں نے ہمارے لیے پھیلا رکھا ہے وہ چاہتے ہیں دوسرے ادیان کو مہر و محبت سے پہچنوائیں جبکہ دین فطرت(اسلام) سے لوگوں کو دور کریں۔

امام خمینی(ع) کے دوستوں سے نقل ہوا ہے کہ آپ بارہا کہا کرتے تھے: سب سے زیادہ ان لوگوں نے اسلام پر کاری ضربتیں لگائی ہیں جنہوں نے اسلام کی ایک پہلو تفسیر کی ہے، مثلا اسلام کے زہد کو دیکھا لیکن اس کے نظریہ آبادانی کو نہیں دیکھا۔ لہذا ہمیں اسلام کے دونوں پہلو کو بیان کرنا چاہیے۔ جہاں محبت کی بات ہو وہاں محبت سے اور جہاں تشدد کی بات ہو وہاں تشدد سے بات کریں۔

 

سوال: یہی ایک پہلو نگاہ، مجالس عزا میں بھی پائی جاتی ہے۔ وہاں جتنا زیادہ شفاعت اور توسل کو بیان کیا جاتا ہے اتنی معرفت کے پہلو کو اہمیت نہیں دی جاتی اور ہمارے جوانوں کے ذہنوں میں نقش کر جاتا ہے کہ ہم عزاداری منا کر ائمہ کی شفاعت کے مستحق ہو جائیں گے اور اسلام کے دیگر مسائل کی طرف توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کا اس سلسلے میں کیا نظریہ ہے؟

سید احمد خاتمی: شفاعت ان مسائل میں سے ہے جن کا بیان کرنا بہت ضروری ہے۔ اس لیے کہ وہابیت کی طرف سے اس مسئلہ پر بہت حملے ہوتے ہیں۔ ہمیں وہابیت کی خطرناک سازشوں کا سامنا ہے۔ لہذا شفاعت اور توسل کو زیادہ اہمیت دینا چاہیے۔ لیکن اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ امام صادق(ع) نے اپنی آخری عمر میں فرمایا: "لاتنال شفاعتنا من استخف بالصلاة" ہماری شفاعت اس کو نصیب نہیں ہوگی جو نماز کو ہلکا سمجھے۔

ہماری مجالس کے اندر عقلی، منطقی، عواطفی اور احساساتی تمام باتیں ہونا چاہیے اور ان تمام چیزوں کو صرف لوگوں کی تربیت کے لیے بیان کرنا چاہیے۔ لہذا مشکل یہ نہیں ہے کہ کیوں شفاعت اور توسل کو زیادہ بیان کیا جاتا ہے بلکہ مشکل یہ ہے کہ انداز بیان صحیح نہیں ہوتا۔

 

سوال: کیا تقویٰ اور صبر کا نہ ہونا اس بات کا باعث نہیں بنا کہ لوگ امام حسن علیہ السلام کو ان کے قیام میں اکیلا چھوڑ دیں؟

سید احمد خاتمی: امام حسن علیہ السلام اپنے والد بزرگوار امیر المومنین(ع) کے بعد آٹھ مہینہ مسند حکومت پر رہے۔ معاویہ کو بھی نوٹس دیا کہ تسلیم ہو جائے۔ لیکن آخر کار حالات کچھ ایسے ہوگئے کہ امام حسن(ع) اپنے بلند مقاصد تک نہ پہنچ سکے۔ امام حسن علیہ السلام کے مقاصد بھی وہی مقاصد تھے جو امیر المومنین(ع) کے تھے۔ لیکن شرائط نے آپ(ع) کو صلح کرنے پر مجبور کیا، اس وجہ سے کہ:

۱): امام حسن علیہ السلام کا لشکر ایک مزاج رکھنے والے افراد پر مشتمل نہ تھا اس لیے کہ وہی لشکر جو امام علی(ع) کے دور میں تھا وہی امام حسن علیہ السلام کی طرف منتقل ہوا۔ آپ کو اصلاحات کرنے کا موقع نہ ملا۔ اس لشکر کے درمیان خیانتکار افراد زیادہ تھے اور اہلبیت(ع) کی محبت اور اسلام کا درد رکھنے والے لوگ بہت کم تھے۔

۲): لوگوں کی سمجھ میں یہ نہیں آ رہا تھا کہ امام حسن(ع) اور معاویہ کی داستان ایک امام معصوم اور ایک باغی کی داستان ہے۔ بعض تو یہ سمجھ رہے تھے کہ دو حاکموں اور دو حکومتوں کی آپس میں ٹکر ہے!!

۳): کچھ لوگ متزلزل تھے، بظاہر امام حسن علیہ السلام کے ساتھ تھے۔ مثال کے طور پر عبداللہ ابن عباس کہ جو امام کے رشتہ دار بھی تھے اور آپ کے لشکر کے سپہ سالار بھی، لیکن معاویہ کے سونے کے سکوں پر بک گئے!!

۴): معاویۃ بن ابی سفیان، انتہائی درجہ کا مکار اور فریبکار شخص تھا۔

ان تمام وجودہات کے باوجود امام حسن علیہ السلام نے صلح کا تقاضا نہیں کیا۔ صلح کا تقاضا معاویہ نے کیا اور کہا: آپ جو شرائط بھی رکھنا چاہتے ہیں رکھیں، ہمیں تسلیم ہے!! امام حسن(ع) نے ایک ہوشیار اور وقت شناس حاکم کی طرح عمل کیا اور صلح کی قرارداد میں جو چیزیں ہونا چاہیے تھیں، وہ سب رکھیں اور اس قرارداد کو باندھ کر امام حسین(ع) کے قیام کے لیے زمینہ فراہم کر دیا۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ قیام حسینی سے پہلے قیام حسنی واقع ہو چکا تھا۔

 

سوال: آج ہمارے معاشرے میں موجود بہت ساری اخلاقی برائیاں اس وجہ سے ہیں کہ انسانی زندگی کے مختلف ابعاد اور گوشوں میں سیرت اہلبیت(ع) کم رنگ ہوگئی ہے۔ تو کیسے ہم ان واقعات سے عبرت حاصل کر سکتے ہیں جو امام حسن علیہ السلام کی زندگی میں پیش آئے؟

سید احمد خاتمی: ہمارا درس عبرت یہ ہے کہ امت اسلامی اس صورت میں کامیابی کی چوٹیاں سر کر سکتی ہے جب اس کے ساتھ رہبر ہوگا جس کی وہ اطاعت کرسکے۔

توجہ رہنا چاہیے کہ صرف صالح رہبر کا ہونا کسی مشکل کو حل نہیں کر سکتا۔ امیر المومنین علی(ع) سے زیادہ صالح رہبر کون ہو سکتا ہے؟ آپ فرماتے ہیں: "ولکن لا رأی لمن لایطاع" جب تم علی(ع) کی بات کو نہیں سنو گے تو علی کا کیا کام ہے؟ تمام اسلامی امتیں مصر سے لے کر تیونس، بحرین، یمن سب یہ جان لیں کہ صرف ظالم حکمرانوں کو سرنگوں کرنا کافی نہیں ہے بلکہ بلند مقاصد تک پہنچنے کے لیے صالح رہبر کی اطاعت ضروری ہے۔

دوسرا نکتہ، بصیرت اور تقویٰ کا زندگی کے تمام گوشوں میں پایا جانا ہے جو بلند مقاصد تک پہنچنے کے لیے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ لشکر امام حسن(ع) میں نہ بصیرت پائی جاتی تھی اور نہ تقویٰ، جس کی وجہ سے عالم اسلام پر ایک کاری ضربت لگی۔ معاویہ نے آل زیاد کو اس بات پر گماشتہ کر رکھا تھا کہ شیعوں کو ان کے مخفی ٹھکانوں سے نکال کر قتل کریں۔ امت اسلام پر تاریک راتیں گزریں ہیں جن کا سبب صرف دنیا طلبی، عدم بصیرت اور اسلامی سماج میں سستی تھی۔ ہمیں امام حسن علیہ السلام کی زندگی سے اس چیز کی عبرت حاصل کرنا چاہیے تاکہ یہ ناگوار حوادث دوبارہ تاریخ اسلام میں تکرار نہ ہوں۔

 

منبع بمع خلاصہ گیری: http://ur.abna24.com

ای میل کریں