تحریر: امیر علی میرزا خانی
سب سے پہلے یہ واضح رہے کہ اس حملے کا تجزیہ دو سطحوں پر کیا جا سکتا ہے۔ پہلی سطح خود حملے کی نوعیت ہے اور دوسری سطح نقصانات کا اندازہ و تخمینہ۔ نقصانات کی تفصیلات، فی الحال نامعلوم ہیں، لیکن حملے کی نوعیت کے حوالے سے اہم نکات کچھ یوں ہیں۔
اس حملے میں پہلی چیز جو بہت اہم اور بے مثال تھی، وہ ہے ایران کی طرف سے مقبوضہ علاقوں پر براہ راست اور باقاعدہ سرکاری حملہ۔ چونکہ کسی ملک کے سفارت خانے اور قونصل خانے پر حملہ کرنے کا مطلب اس کی سرزمین پر حملہ کرنا ہے۔ مقبوضہ علاقوں میں ایران کا ردعمل نہ صرف اسی سطح پر تھا بلکہ اسرائیل کے ایرانی قونصل خانے پر حملے سے بھی زیادہ تھا۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ کل رات کا حملہ یک جہتی نہیں تھا۔ کل سہ پہر ایک اسرائیلی تجارتی جہاز کو ایران نے اپنے قبضے میں لے لیا۔ مقبوضہ علاقوں میں بجلی منقطع ہوگئی اور جہاز رانی کا نظام درہم برہم ہوگیا۔ نیز اس حملے میں ڈرون اور میزائل بیک وقت استعمال کیے گئے۔
تیسرا نکتہ پورے بین الاقوامی نظام میں ایران کے ہتھیاروں کی تاثیر کو ظاہر کرنا ہے۔ اب تک ایران کے ہتھیار حقیقی میدانوں میں استعمال نہیں ہو رہے تھے۔ بڑی کامیابی کے ساتھ ہتھیاروں کی اس مقدار کو داغنا اور مطلوبہ اہداف کو نشانہ بنانا ایک اہم نکتہ ہے، جو اس حملے میں واضح طور پر دیکھا گیا۔
چوتھا نکتہ ایران، پورے مغربی ایشیائی خطے اور یہاں تک کہ دنیا کے لیے اپنی ڈیٹرنس کی سطح کو بڑھاتا رہا ہے اور اب ایران کے فیصلہ کن اور وسیع ردعمل نے ثابت کر دیا کہ ایران کے مفادات اور سرزمین پر کسی بھی قسم کی مداخلت کو فیصلہ کن اور وسیع ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا، حالیہ اقدام نے ڈیٹرنس کی سطح کو نمایاں طور پر تبدیل کر دیا ہے۔
پانچواں نکتہ سپاہ کے کمانڈر جنرل سلامی کے الفاظ کچھ یوں ہیں: ہم نے ایک نئی مساوات قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ نئی مساوات یہ ہے کہ آج سے صیہونی حکومت ہمارے مفادات، املاک، شخصیات اور شہریوں پر کہیں بھی کسی بھی وقت حملہ کرے گی، اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔