تحریر: سید تنویر حیدر
ہم صدیوں سے ہر نماز کے بعد ظہورِ امامِ زمانہ کی جو دعا تسلسل کے ساتھ مانگ رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ وہ اب مستجاب ہونے کے قریب ہے۔ اس وقت چشمِ منتظر، افقِ عالم پر جس طرح کے نئے مناظر کو تخلیق ہوتا دیکھ رہی ہے، وہ کسی ایسے آفتابِ عالم تاب کے طلوع ہونے کی بشارت دے رہے ہیں، جو یقیناً شب گزیدہ انسانیت کے لیے روشنی کا پیغام لے کر افق کی نادیدہ گہراٸیوں سے ابھرے گا۔ گردشِ زمانہ پر نظر رکھنے والے اہل نظر آج کے اس ہنگامہ خیز دور کو ”عصرِ ظہور“ کا عنوان دے رہے ہیں۔ رسولِ خدا اور آٸمہء اہل بیت(ع) سے منسوب روایات اس نئے منظر نامے کی پہلے ہی خبر دے چکی ہیں۔
آج زیرِ زمین اور بالائے زمین لرزا دینے والی جس قسم کی تبدیلیوں کو ہم اپنی چشمِ سر سے دیکھ رہے ہیں، ان کا ذکر صدیوں پہلے کر دیا گیا ہے۔ عالم انسانیت چودھویں صدی کے اختتام پر جس طرح کی بڑی تبدیلی کا منتظر تھا، وہ انقلابِ اسلامی کی شکل میں منصہء شہود پر ظاہر ہوچکی ہے۔ ایران کے انقلاب نے صدیوں کا ”سٹیٹس کو“ توڑ کر ظہورِ منجیء بشریت کا راستہ ہموار کر دیا ہے۔ قادرِ مطلق نے اپنے کلامِ مقدس میں جہاں دنیائے ستم کے خلاف آخری قیام کرنے والے مہدیء موعود کا مختلف پیراٶں میں ذکر کیا ہے، وہاں ان کے ظہور سے قبل دنیا میں ایسی نابغہء روزگار ہستیوں کی موجودگی کا ذکر بھی کھلے انداز میں کیا ہے، جو انقلاب مہدی کے لیے زمینہ سازی کا کام کریں گی۔
اگرچہ ہمارا دھیان اس طرف کم کم ہے۔ نماز جمعہ میں ہم جس سورہء جمعہ کی تواتر سے تلاوت کرتے ہیں اور سنتے ہیں، ہم نے اسے زیادہ تر احکام نماز جمعہ کے تناظر میں ہی دیکھا ہے۔ شاید ہم نے اسے اس نظر سے کم ہی دیکھا کہ خداوند قدوس نے اس سورہ میں ایک ایسی جماعت اور گروہ کا ذکر کیا ہے، جنہیں فضیلت کے اعتبار سے رسول خدا کے اصحاب میں سے قرار دیا گیا ہے اور جو آخری زمانے میں ظہور امام زمانہ سے پہلے ظاہر ہوں گے۔ ان سے آگاہی حاصل کرکے ہم آخری زمانے کے طوفانی فتنوں میں اپنی سمت درست رکھ سکتے ہیں۔ صحیح مسلم کی جلد: 4، ص:47 میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ”ہم رسول خدا کے پاس تھے کہ سورہ جمعہ نازل ہوٸی۔ پس حضرت نے اس کی تلاوت فرماٸی۔
یہاں تک کہ آپ اس جگہ پہنچے ”وآخرین منھم لما یلھقوابھم“ تو رسول خدا سے ایک صحابی نے پوچھا کہ وہ کون ہیں، جو ابھی تک ہم سے ملحق نہیں ہوئے ہیں۔ سلمان فارسی اس وقت ہم میں موجود تھے۔ پس رسول خدا نے سلمان کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر ایمان ثریا پر بھی ہوا تو اس کی قوم کے مرد اسے وہاں سے اتار کر لے آٸیں گے۔" جس طرح رسول اللہ نے میدانِ غدیرِ خم میں سب کے سامنے امیرالمومنین کا ہاتھ بلند کرکے اور سب کو دکھا کر اپنے بعد آنے والے حالات میں امت کی امامت کے لیے ان کی پہچان کرواٸی، تاکہ بعد میں آنے والے امیرالمومنین کے علاوہ کسی اور کا نام بدل کر علی نہ رکھ لیں، اسی طرح رسول خدا نے تمام صحابہ کے سامنے جنابِ سلمان فارسی کے شانے پر ہاتھ رکھ کر بتایا کہ زمانہء آخر میں سلمان فارسی، جو میرے اہل بیت میں سے ہے، اس کی قوم کے بعض افراد ہیں، جو زمانہء آخر کے فتنوں میں امت کی رہنماٸی کریں گے۔
آج کے مفسرین نہ جانے کیوں اس حدیث اور اس سے ملتی جلتی احادیث سے چشم پوشی کرتے ہیں؟ قابل غور ہے کہ آخر ”وآخرین منھم“ والی آیت مبارکہ کو سورہ جمعہ کی ہی زینت کیوں بنایا گیا ہے۔ وہ سورہ جس کی تلاوت ہر جمعے کے خطبے میں کی جاتی ہے۔ یقیناً اس میں غور و فکر کا کافی سامان موجود ہے۔ ہمارے علماء کو صرف رسمی طور پر ہی اس سورہ کی تلاوت نہیں کرنی چاہیئے بلکہ زمانے کے جدید تقاضوں کو سامنے رکھ کر اس سورہ کو زیادہ سے زیادہ اپنے خطابات کا موضوع بنانا چاہیئے۔ احادیث میں امام مہدی کے ظہور سے قبل جہاں مختلف قسم کے واقعات اور حادثات پر روشنی ڈالی گئی ہے، وہاں ایک بہت بڑے فتنے، فتنہء شام اور اس سے جڑے دوسرے بڑے فتنے ”فتنہء فلسطین“ کا ذکر کیا گیا ہے۔
فلسطین کا فتنہ وہ آتش فشاں ہے، جو آج پھٹ چکا ہے اور اس کے بطن سے ”طوفان اقصیٰ“ جیسے طوفان جنم لے چکے ہیں۔ روایات میں مذکور ہے کہ ظہور امامِ زمانہ سے قبل فلسطین میں ایسے ایسے مظالم ہوں گے، جو اس سے پہلے دنیا نے دیکھے نہیں ہوں گے۔ آج اسراٸیلی حکومت مظلوم فلسطینیوں پر جس طرح کے مظالم ڈھا رہی ہے، یقیناً ایسے مظالم دنیا نے اس سے قبل نہیں دیکھے تھے۔ لیکن آفرین ہو، سلمان فارسی کی قوم پر اور اس کی قیادت پر، جو محض ایران کی قیادت نہیں ہے بلکہ تمام مستضعفین جہاں کی قیادت ہے، جس نے آج تمام دشمنان اسلام کے خلاف میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ علم جو کبھی خیبر میں رسول اللہ نے خیبر شکن کو دیا تھا، آج وہ خیبر شکن کے وارثوں کے ہاتھ میں ہے۔ بقول افتخار عارف:
علم کسی نے کسی کو دیا تھا خیبر میں
وہ دن اور آج کا دن اب علم ہمارا ہے