ایک دفعہ عراقی حکومت کا چودہ رکنی وفد امام ؒ کی خدمت میں حاضر ہوا، چونکہ اس سے پہلے چار رکنی ایک وفد آ کر ناکام پلٹ چکا تھا۔ امام ؒ نے فرمایا: ’’جو شخص مترجم ہے وہ ترجمہ کیلئے آ جائے‘‘ ہم نے جب مترجم سے کہا کہ آ جاؤ تو وہ گھبرایا اور پہلے آنے سے انکار کیا۔ پھر عذر پیش کیا اور کہا: وہ شخص جو اس وقت امام کے پاس آنے والا ہے وہ ایسا ویسا ہے۔ یعنی گورنر کے بد اخلاق ہونے کی بات کی اور کہا کہ امام سے کہو کہ ذرا احتیاط کریں گے۔ میں نے اس سے کہا: تم کیا کہتے ہو! امام نے ۱۳۴۳ ھ ش (۱۹۶۴ ئ) میں اپنے گھر میں امریکی صدر کو مخاطب کر کے کہا کہ وہ ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ قابل نفرت آدمی ہے۔ وہ امام کیا ان جیسوں سے خائف ہو سکتے ہیں ؟ اگر میں یہ بات امام سے کہوں تو وہ مجھے بھی باہر کر دیں گے۔ وہ مترجم شخص بھی ہنستا ہوا، باہر گیا۔ بعثی حکومت کا وفد امام کے گھر میں داخل ہوا۔ میں گھر کے صحن میں کھڑا تھا۔ انہوں نے یا تو مجھے دیکھا یا نہیں ۔ وہ لوگ مطمئن تھے کہ میں عربی نہیں سمجھتا ہوں ورنہ وہ یہ بات ہی نہ کرتے۔ گورنر اپنے ہوش کھو بیٹھا تھا۔ اس نے اپنے ہمراہ آنے والے مامور سے کہا: اب ان کے پاس جا کر کیا کروں ؟ مامور نے کہا: ان کے ہاتھ چوم لو۔ (امام کے) یہ لوگ داخل ہوئے اور امام کی خدمت میں جا کر بیٹھ گئے۔ اپنے ہمراہ ٹیپ اور فلمی آلات بھی لائے تھے۔ انہوں نے ویڈیو فلم کا اسٹینڈ نصب کیا۔ اب تک امام خاموش رہے۔ جب اپنے ضروری کام سارے پورے کر لئے تو امام ؒ نے فرمایا: ’’ان سب کو اٹھاؤ‘‘ انہوں نے سمیٹ لیا۔ صرف ایک ویڈیو کیمرہ رکھا گیا۔ ایک نے کہا: ’’بالصورہ‘‘ یعنی صرف ہم ایک تصویر لینا چاہتے ہیں ۔ امام ؒ نے کہا: ’’نہیں ہوسکتا‘‘ انہوں نے ساری چیزیں اٹھا لیں ۔ جب ان کی گفتگو ختم ہوئی تو اٹھ کے چلے گئے۔ امام اس قدر اپنی بات پر قابو رکھتے تھے اور کسی بھی صورت سے حاضر ہیں تھے ان کے ساتھ کوئی نرم رویہ رکھیں ۔