حضرت رقیہ بنت الحسین علیہما السلام کے بارے میں ایک تحقیقی گفتگو

حضرت رقیہ بنت الحسین علیہما السلام کے بارے میں ایک تحقیقی گفتگو

حضرت رقیہ بنت الحسین(س) کے بارے میں اگر ہم ان کے بارے میں موجود واقعہ کا انکار کرنا چاہیں تو تمام مقتل کو کنارے لگانا پڑھے گا۔

بانی انقلاب اسلامی امام خمینی(رح) نے فرمایا:’’ انقلاب کی کامیابی میں ہماری خواتین کا بنیادی کردار تھا، اگر مردوں سے آگے نہ ہوں، تو ہرگز اُن سے پیچھے بھی نہیں تھیں۔‘‘

یہ واضح رہے کہ ہمارے اسلاف سے جو مطالب ہم تک پہنچتے ہیں وہ کبھی فقہ کے بارے میں ہے اور کبھی اخلاقی اور بعض اوقات، اعتقادی مسائل میں سے ہیں، اگرچہ اعتقادی مسائل میں بنیاد روایت نہیں ہے بلکہ اس میں بنیاد عقل ہے۔ جی ہاں! ان کی جزئیات صحیح روایات سے ثابت ہوتا ہے، اگر اعتقادی مسائل میں کوئی روایت نقل ہوئی ہو تو وہ بھی عقل کے سمجھ آنے والی چیز کی تائید ہے۔
عام طورپر اہل فن کے علاوہ، کوئی مذکورہ بالا امور میں سند نہیں ڈھونڈتا ہے لیکن تاریخی مسائل میں، ہم اغلب صحیح سند کے درپے ہوتے ہیں، کیوں؟

جواب دیا گیا ہے کہ تاریخی مسائل، دو قسم کے ہیں، بسا اوقات ذاتی اور سیاسی اغراض ومقاصد کی وجہ سے جعلیات اور ناجائز موارد، صفحات کتب میں ٹھوس دیا گیا ہو اور محتمل ہے کہ کوئی انگیزہ نہ ہونے کی وجہ سے تاریخی واقعہ ہو بہو منقول ہوا ہو۔ اس بناپر ہم صحیح سند کی تلاش میں رہتے ہیں۔

 

لیکن واقعہ کربلا میں بہت سارے واقعات ایسے ہیں کہ ان کے جعل کرنے کا کوئی مقصد نہیں ہے، نیــز واقعہ عاشور اور اس کے بعد والے واقعات کے بارے میں ایک اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ کربلا کے واقعہ کو متعدد افراد نے نقل کئے ہیں۔ کربلا کے بعض واقعات عمر بن سعد کے سپاہیوں کے ذریعہ نقل ہوا ہے،
بعض واقعات کو ضحاک بن عبد اللہ نے نقل کیا ہے، بعض واقعات امام سجاد علیہ السلام سے نقل ہوا ہے جیسے شب عاشورا میں حضرت امام حسین علیہ السلام کا خطبہ، حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے خطبہ کو بشیر بن حزلم نے نقل کیا ہے۔
علامہ شعرانی(رح) نے اپنے بعض  مکتبوبات میں لکھا ہے کہ جب ہم تاریخی دو واقعہ کو ایک جگہ رکھتے ہیں تو ان دونوں کے درمیان کچھ اختلافات اور کچھ مشترکات پاتے ہیں، ان دونوں تاریخی واقعہ سے جو نتیجہ حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اصل واقعہ صحیح ہے۔

حضرت رقیہ بنت الحسین(س) کے بارے میں اگر ہم ان کے بارے میں موجود واقعہ کا انکار کرنا چاہیں تو تمام مقتل کو کنارے لگانا پڑھے گا۔ اس لئے کہ یہ واقعہ صرف ایک کتاب میں نہیں بلکہ مختلف مکتوبات میں ثبت شدہ ہے:

عماد الدین طبری، ساتویں صدی ہجری کے علماء میں سے ہے، مرحوم شہید اول نے نماز جمعہ کے بحث میں ان کی نظریہ کو بیان کیا ہے، ان کی کتاب ''کامل'' جو کہ ''کامل بہایی'' سے مشہور ہے ساتویں صدی میں لکھا ہوا ہے، اس کتاب کی جلد ٢ صفحہ ١٧٩ میں صریحاً لکھا ہے کہ حضرت رقیہ(س) امام حسین(ع) کی بیٹی ہے، انہوں نے لکھا ہے: یہ بچی نیند سے اٹھی اور بولی: این ابی؟ اپنے باپ کو تلاش کیا، جب یزید نے بچی کی رونے کی آواز کو سنی تو حکم دیا کہ امام حسین(ع) کی سر مقدس کو اس بچی کے سامنے بیجھا جائے، جب اپنے باپ کے سر مقدس کو دیکھا تو اسی وقت وفات پائی، انہوں نے لکھا ہے کہ اس بچی کی عمر چار سال تھی۔

بحار الانوار کے بہت سارے مصادر ہمارے پاس نہیں ہے، لیکن تین سو سال پہلے یہ مرحوم مجلسی کے پاس تھے یا زبیر بن بکار کی کتاب "الموفیقات" ابھی ہمارے پاس نہیں ہے لیکن آٹھ سو سال پہلے یہ کتاب ابن ابی الحدید معتزلی سنی عالم دین کے پاس موجود تھی اور اس کتاب سے انہوں نے نقل کیا ہے۔
یا ابوبکر جوہری کی کتاب ''السقیفة و الفدک'' آج ہمارے پاس نہیں ہے لیکن یہ چوتھی صدی ہجری کی اصلی کتابوں میں سے تھی اور ابن ابی الحدید نے اس سے نقل کیا ہے اور اس بارے میں لکھا ہے اہل سنت کے ثقات میں سے ہے۔

بعض نے لکھا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی دو بیٹیاں تھیں ایک کا نام فاطمہ تھا اور دوسرے کا نام سکینہ، اگر ایسا ہے تو رقیہ کس کی بچی ہے؟ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ علی بن عیسی اربلی کتاب کشف الغمہ میں امام حسین(ع) کے چار بچیوں کو ذکر کیا ہے، لہذا اس لحاظ سے کوئی مشکل نہیں ہے، امام صادق(ع) کے صحابی سیف بن عمیرہ نخعی کی اشعار میں بھی حضرت رقیہ(س) کا نام ذکر ہوا ہے۔

و رقیة رقّ الحسود لضعفها // و غدا" لیعذرها الذی لم یعذر

طبری کے نقل سے بھی استفادہ ہوتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی چار سال کی ایک بیٹی تھی کہ جو اپنے باپ کے جدائی کو برداشت نہیں کر سکی اور شام میں وفات پائی؛ لیکن انہوں نے ان کے نام کو ذکر نہیں کیا ہے، ان کے بعد بھی مورخین نے اس جانگداز واقعہ کو مختصر اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے اور بعض جگہوں پر کچھ اضافہ بھی ہوا ہے کہ معلوم ہوتا ہے، زبان حال ہے۔
شیخ محمد ہاشم خراسانی اسیر ہونے والے مخدرات کی تعداد کو بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے: التاسعة (نواں)، وہ بچی ہے کہ جو شام کے خرابہ میں وفات پائی، ان کا نام شاید رقیہ(س) تھا اور خود امام حسین علیہ السلام کی بیٹیوں میں سے تھی، شام کے خرابہ میں جو مزار ہے وہ اسی مخدرہ سے منسوب ہے اور مزار رقیہ سے ہی مشہور ہے۔

 

ماخذ: ur.zn.farhangoelm.ir دخل وتصرف کے ساتھ،

ای میل کریں