عید غدیر ہے جو مذہبی اعیاد میں سے سے بڑی عید ہے ۔ یہ عید محروموں کی عید ہے ۔یہ عید مظلوموں کی عید ہے ۔ یہ عید ایسی عید ہے کہ جس دن خدائے تبارک و تعالیٰ نے رسول اسلام(ص) کے ذریعہ الٰھی مقاصد کے اجراءاور راہ انبیاءکے استمرار کے لئے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جانشین مقرر فرمایا لیکن افسوس کہ جب حکومت کی باگ ڈور آپ کے ہاتھوں میں آئی تو خائن ہاتھوں اور بے سبب جنگ کے شعلے بھڑکانے والوں نے اس عظیم شخصیت کے مختلف پہلوئوں کو اجاگر نہ ہونے دیا جب کہ آپ کی شخصیت ایک ایسی پر اسرار شخصیت ہے کہ جس کے پہلو قابل شمار نھیں ہے۔
فی الحال میں آپ کی زندگی کے تمام پہلوئوں کو اجاگر نھیں کر سکتا لیکن یہ تذکرہ صرف اس لئے کر رہا ہوں کہ وہ افراد جن کی معلومات وسیع ہیں اور وہ معارف اسلامی سے آگاہ ہیں ان کے لئے فکر کا راستہ کھل جائے اور وہ صحیح طور پر اس عظیم شخصیت کی زندگی کو آئینہ بنا کر موجودہ صورت حال کا جائزہ لے سکیں۔
حضرت علی علیہ السلام اسمائے الٰہیہ کے مظھر ہیں اور آپ کی شخصیت میں سب سے عجیب بات یہ ہے کہ آپ کی زندگی کے مخفی پھلو آپ کے نمایاں پہلوئوں سے کھیں زیادہ ہیں حتیٰ آپ کی زندگی کا وہ پھلو بھی جس تک بشر پھنچ سکا ہے یا پھنچے گا مکمل طور پر قابل فھم نھیں ہے آپ کی زندگی کا ایک پہلو دوسرے پہلو سے متضاد نظر آتا ہے ۔انسان سوچنے پر مجبور ہے کہ ایک انسان جو زھد کے عظیم ترین مقام پر فائز ھو وہ کیوں کر عظیم تر ین جنگجو بھی ہو سکتا ہے ۔ اس لئے کہ عام انسانوں میں دیکھنے میں آتا ہے جو جنگجو ھوتا ہے وہ زاھد نھیں ھوتا ۔ جب کہ آپ کے زہد کا عالم یہ تھا کہ خوراک و غیرہ کے معاملے میں بھی کمترین چیز پہ اکتفا کرتے تھے لیکن اس کے باوجود آپ کے بازوئوں میں قوت و طاقت تھی ۔
آپ کو مختلف علوم پر اس قدر دسترس تھی کہ ہر شعبے کا ماھر انسان آپ کو اپنے ہی شعبہ سے وابستہ سمجھتا ہے ۔ فقھاءآپ کو اپنا ہم صف قرار دیتے ہیں اور جو دوسرے فنون میں ماھر ہیں وہ آپ کو اپنے فن سے متعلق بتاتے ہیں جب کہ آپ کی ذات وہ ذات ہے جو تمام اوصاف و کمالات کی حامل ہے اور آپ کو کسی ایک شعبے سے مخصوص نہیں کیا جاسکتا ۔
میں کبھی سوچتا ہوں کہ کس شباہت کی بنا پر ہم اپنے بارے میں اس عظیم شخصیت کے شیعہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اگر مفکرین، اہل قلم اور صاحب نظر افراد حضرت علی علیہ السلام کے روحانی اور مادی پہلوئوں کے علاوہ دوسرے تمام زندگی سے وابستہ امور کا جائزہ لیں جو کہ ابتدائی عمر سے بستر شہادت تک آپ کی شخصیت میں موجود رہے ہیں تو کیا ھم تب بھی اپنے بارے میں آپ کے شیعہ ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں ؟
در حقیقت اگر ھم اپنی حالت پر حقیقت پسندی سے غور کریں تو ھم اپنے اور حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے درمیان ایک بھی شباھت پیدا نھیں کر سکتے۔
حضرت علی علیہ السلام خدا کی عبادت کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
۱۔غلاموں کی طرح ڈر ڈر کر عبادت ۔
۲، بھشت کی لالچ میں عبادت ۔
۳۔ خدا کی محبت کی بنا پر عبادت ۔
اور پھر تینوں کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ پہلی والی عبادت غلاموں کی ہے دوسری عبادت تاجروں کی ہے اور تیسری عبادت خدا سے محبت رکھنے والوں کی عبادت ہے ۔
اب آپ یہ بتایئے کہ اگر آپ سے یہ وعدہ کر لیا جائے کہ آپ میں سے کوئی بھی دوزخ نھیں جائے گا اور سب کے سب بھشت میں جائیں گے تو بھی کیا آپ خدا کی عبادت کریں گے ؟
اگر آپ سے کھا جائے کہ تم پر دوزخ کے دروازے بند ہیں لیکن میری محبت کی خاطر عبادت کرو تو کیا آپ اپنی ذات میں ایسی محبت پاتے ہیں جو آپ کو عبادت پر مائل کر سکے ؟
جھاں نہ خوف ھو نہ امید ھو اور نہ ھی کوئی دوسری نفسانی جھت ،میں عرض کر چکا ھوں اس طرح کے دعوے تو بھت ھو سکتے ہیں لیکن عمل مشکل ہے ۔اس لئے کہ ہمارے اندر اگر کھیں محبت ہے تو وہ جب نفس ہے ھم ابھی تک نفسانی مدارج سے ایک قدم بھی آگے نھیں بڑھ سکے ہیں حتیٰ وہ پھلا قدم بھی نھیں بڑھا سکے ہیں جسے اھل سلوک لفظ " یقظہ"یعنی بیداری کھتے ہیں ھم ابھی تک بھی ظاھر ی دنیا کے حجاب میں گرفتار ہیں اور شاید آخرت تک بھی گرفتارہی رہیں مگر یہ کہ خدا وند عالم کی خاص عنایات ھمارے شامل حال ھو جائیں ۔
آج کے اس مبارک موقع پر روایات میں وارد ہے کہ ھمیں اس ذکر کا ورد کرنا چاھئے " الحمد للّٰہ الَّذی جعلنا من المتمسکین بولایة امیر المومنین و اھل بیت علیھم السلام"میں پوچھنا چاھوں گا کہ تمسک کا مطلب کیا ھوتاہے ؟ تمسک کا مطلب آیا یھی ہے کہ ھم ان کے کلمات کو پڑھ لیں اور آگے بڑھ جائیں جب کہ ھم جس تمسک کو اپنی زبان سے کھہ رھے ہیں اور وہ محبت سے بھی مربوط نھیں ہے بلکہ حضرت علی علیہ السلام کی ولایت سے تمسک کرنا ہے اور ولایت حضرت علی علیہ السلام سے تمسک اس وقت تک نھیں ھو سکتا جب تک ھم ان مقاصد کی پیروی نہ کریں جو حضرت علی علیہ السلام کے مقاصد تھے ۔
صرف یہ کھنا کہ ھم حضرت علی علیہ السلام کے شیعہ یا ان کی ولایت سے متمسک ہیں ھمارے لئے کافی نھیں ہے اس لئے کہ وہ لفظی امور نھیں ہیں کہ جو لفظ کھنے سے تحقق پاجائیں بلکہ یہ تمام امور عملی ہیں ۔
پس جو لوگ بھی یہ ادعا کرتے ہیں کہ ھم حضرت علی علیہ السلام کے شیعہ ہیں اور ان کے تابع ہیں انھیں اپنے قول سے نھیں بلکہ اپنے فعل سے ثابت کرنا ھوگا کہ وہ شیعہ علی ابن ابی طالب علیھما السلام ہیں اور اپنے فعل سے ھم اس وقت ثابت کر سکتے ہیں جب آپ کی پیروی کریں اور جب تک یہ پیروی اور اتباع نہ ھو ھم خود کو حضرت علی علیہ السلام کا شیعہ نھیں کہہ سکتے اور اگر بغیر آپ کی بیعت کئے ہم پھر بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم حضرت علی علیہ السلام کے شیعہ ہیں تو یہ ایک عبث بات ہے جس کی کوئی حقیقت نھیں ہے ۔
خدا ھم سب کو حضرت علی اور ائمہ علیھم السلام کے دوست داروں اور موالیوں اور شیعیان حیدر کرار میں سے قرار دے۔
ہ