تمنائے وحدت امام خمینی تفرقہ و اختلاف سے مقابلہ کرنے کی اشد ضرورت سے پیدا ہوئی ہے کہ امت مسلمہ کے درمیان جس کے سنگین ذلت بار نتائج ہیں اور شاید اس کی تلافی ممکن نہ ہو، کیونکہ بیگانوں نے مسلمانوں اور اپنے تسلط و نفوذ کا اسلامی ممالک میں بیج بویا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان اپنی انسانی شرافت و شخصیت سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے اور میدان میں پیچھے ہے۔ استقلال و آزادی اور اپنی عظمت سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے اور شرق و غرب سے وابستہ ہے یہ شرمناک حالات اور شرائط ہیں جو امام خمینی کو شدت کے ساتھ وحدت کی ضرورت کا احساس دلاتے ہیں اور آپ اسلامی معاشرے کے لئے قیام کرتے ہیں تا کہ اسلامی وحدت پیدا کرکے اور اس سے بالاتر دنیا کے تمام کمزوروں کے درمیان اتحاد اور اتفاق پیدا کرکے اسلامی ممالک کے مقدرات میں بڑی طاقتوں کی دخل اندازی پر روک لگائیں اور ان کو کامیابی کی طرف لے جائیں۔
امام خمینی(ره) آزادی و عدالت کو وحدت کا لازمہ و مقدمہ جانتے تھے اور مسئلہ فلسطین، مناسک حج اور برائت مشرکین جیسے مسائل سے ایجاد وحدت کے لئے استفادہ کرتے تھے اور تحفظ اسلام و مسلمین، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، انسان سازی، تمام انسانوں اور مسلمانوں کے لئے استقلال و آزادی اور شرافت حاصل کرنے، دنیا میں اسلام اور عدل الہی کی توسیع اور اختلاف و تفرقہ کی روک تھام کے مقصد سے آپ نے اپنا وحدت طلبانہ نظریہ پیش کیا۔
امام خمینی شمولیت وحدت کے دائرہ کو بہت وسیع اور فراگیر جانتے تھے اس طرح سے کہ سارے انسانوں، مسلمانان عالم، تمام اسلامی مذاہب یہاں تک کہ دیگر ادیان و مذاہب کو بھی شامل و محیط ہے اور آپ سیاسی، اقتصادی، تمدنی اور عسکری میدانوں میں گوناگوں مقاصد کی تلاش میں تھے کہ دو داخلی و خارجی سطح میں اور مختصر مدت، درمیانی مدت اور طولانی مدت منصوبہ میں قابل تقسیم ہیں۔
خلاصہ امام خمینی کی مد نظر وحدت مسلمانوں کے لئے بکثرت فوائد و نتائج کی حامل ہے اور مستقبل میں بھی اس کے شاندار نتائج ہوں گے کہ ایران کے اسلامی انقلاب کا ظہور، اسلامی اور دیگر کمزور ملتوں کی آزادی بخش تحریکیں، مسلمانوں سے استکبار جہانی کا خوف و ہراس اور مسلمانوں کی فوقیت اور برتری ان نتائج میں سے ہیں۔ بنابراین امام خمینی کی وحدت کا نظریہ اسلام کی کامیابی اور اس کی بقاء کی کلید ہے۔