امام خمینی(رہ) تاریخ ساز تھے:ڈاکٹرعلی کمساری
مؤسسۂ تنظیم و نشرِ آثارِ امام خمینی کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین ڈاکٹر علی کمساری نے کہا ہے کہ تاریخی امام اورتاریخ ساز امام کے موضوع پر بحث آج کے دور کا ایک نہایت اہم اور بنیادی مسئلہ ہے۔ انہوں نے ثقافتی آثار میں امام خمینی کے نام کے نہ ہونے پر کھل کر تنقید کی ۔ ڈاکٹر کمساری نے اعلان کیا کہ پہلا عالمی امام خمینی ایوارڈ رواں مہینے کی 26 دسمبر کو صدرِ مملکت کی موجودگی میں منعقد ہوگا۔
ڈاکٹر کمساری نے اپنی گفتگو میں تاریخی امام اورتاریخ ساز امام کی دوگانی کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ آج سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ امام کے وصال کے 36 سال بعد بھی کیا ہم ان کی فکر کے محتاج ہیں یا نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک سوچ یہ ہے کہ امام کو محض ایک تاریخی شخصیت سمجھا جائے جن کا کردار ان کے زمانے تک محدود تھا، لیکن دوسری اور صحیح تر سوچ یہ ہے کہ امام خمینی ایک تاریخ ساز رہنما ہیں جن کی فکر زمانے کی قید سے آزاد ہے اور آج بھی تحرک اور اثر پیدا کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ امام کی تاریخ ساز شخصیت نے نہ صرف کربلا کے نوجوانوں، باکری، همت اور زین الدین جیسے شہداء کی تربیت کی بلکہ دنیا بھر میں مزاحمتی تحریکوں کے رہنماؤں پر بھی اثر چھوڑا، جن میں عماد مغنیہ، ابو مہدی المهندس اور حال ہی میں شہید ہونے والے حزب اللہ کے مجاہد شامل ہیں۔ کمساری کا کہنا تھا کہ امام کی فکر کی طرف رجوع کرنا جذبات یا عقیدت کا مسئلہ نہیں بلکہ صلاح اور فلاح کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر کمساری نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب امام کو ایک تاریخی شخصیت سمجھ لیا جائے تو پھر یہ احساس بھی ختم ہو جاتا ہے کہ نئی نسل امام کو جانتی ہے یا نہیں۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک بڑے اور مہنگے ثقافتی منصوبے میں اہم شخصیات کا تذکرہ تھا مگر امام خمینی کا نام موجود ہی نہیں تھا، اور متعلقہ حکام نے وعدہ کرنے کے باوجود آئندہ منصوبے میں بھی اس کمی کو پورا نہیں کیا۔
ڈاکٹر کمساری نے بتایا کہ گزشتہ 36 برسوں میں امام کے تمام آثار کو مدوّن کر کے شائع کیا جا چکا ہے اور ’’موسوعۂ امام خمینی‘‘ کے عنوان سے امام کے علمی آثار کی 50 جلدوں پر مشتمل مجموعہ بھی سال 2015 میں شائع کیا گیا۔ ان کے مطابق امام کا عرفان کسی طرح کا انتزاعی فلسفہ نہیں تھا بلکہ عملاً معاشرے میں داخل اور مؤثر تھا۔ انہوں نے شہید حاج علی محمدی کا مثال دیتے ہوئے کہا کہ ان کی وصیت نامہ عرفانی معانی کا گہرا ذخیرہ ہے جس میں وہ عراقی سپاہی کو مخاطب ہو کر لکھتے ہیں کہ اگر انہیں شفاعت کی اجازت ملی تو سب سے پہلے اسی کو شفاعت کریں گے۔
ڈاکٹر کمساری نے کہا کہ امام کی حکیمانہ فکر نظامِ اسلامی کا سافٹ ویئر ہے اور رہبر انقلاب کے مطابق یہ فکر اسلامی جمہوریہ کی روح ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں آج کے نوجوانوں کے سوالات کا جواب دینا ہوگا اگر امام آج ہوتے تو معیشت کے بارے میں کیا فرماتے؟ بے حجابی پر کیا رویہ اختیار کرتے؟ انتخابات میں کس نوعیت کی شمولیت کے قائل ہوتے؟ اور کیا وہ نوجوانوں کو آگے بڑھنے کا زیادہ موقع دیتے؟
انہوں نے زور دیا کہ آج کی نسل کے ساتھ حکم اور جبر سے بات نہیں بنے گی بلکہ گفتگو، ذوق شناسی اور اقناعی انداز میں امام کی فکر سے روشناس کرانا ہوگا تاکہ یہ نسل بھی اپنے مسائل کے حل کے لیے امام کے راستے سے رہنمائی لے سکے۔