''و اعتصموا بحبل اللہ جمیعاً و لا تفرقوا'' خداوند سورۂ آل عمران میں ارشاد فرما رہا ہے کہ ''خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو''
امت مسلمہ کی یکسوئی اور مسلمان فرقوں کا اتحاد با بصیرت علمائے اسلام کی دیرینہ آرزو رہی ہے. صدیوں کے دوران دشمن کا ہجوم جتنا وسیع تھا اتنا ہی وحدت و یکجہتی کی زیادہ ضرورت محسوس ہوتی ہے اور وحدت کے داعیوں کے فریادیں زیادہ بلند ہوئی ہیں۔
گزشتہ چند عشروں کے دوران اٹھنے والی وحدت و یکجہتی کی آوازیں ہر زمانے سے بلند ترین لیکن وحدت کے مختلف تصورات اور دنیا میں ابھرنے والے اس دینی سیاسی مفہوم کے مختلف نمونوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلامی اتحاد کے نظریئے کے سامنے ابھرنے والے بنیادی سوال یہ ہے کہ مسلمان مفکرین کے گفتار و کردار میں وحدت کا کونسا تصور تھا؟
قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے:''و من یعتصم باللہ فقد ھدی الی صراط مستقیم۔'' اور جو شخص خدا سے وابستہ ہو وہ ضرور سیدھی راہ پر لگا دیا گیا ہے۔ سورۂ آل عمران /١٠١.
حضرت امام خمینی ان چند مفکرین میں سے ہیں جو اپنی فکری زندگی کی ابتداء سے انتہا تک اتحاد و یکجہتی پر زور دیتے رہے۔ انہوں نے عملی زندگی میں بھی وحدت کے حصول کی راہیں ہموار کیں اور اس سلسلے میں موثر قدم اٹھائے۔
میدان وحدت میں بانی اسلامی جمہوریہ ایران حضرت امام خمینی کا نظریہ افراط و تفریط سے دور ہے اور امام کے دیگر نظریات کے طرح یہ بھی منزل کے متلاشیوں کے لئے چراغ راہ ثابت ہوسکتا ہے لہٰذا وحدت کے بارے میں امام خمینی(رح) فرماتے ہیں:
''سرحدیں ضرور جدا ہوں لیکن دلوں کو ایک ہونا چاہئے اگر مسلمان اپنی سرحدوں کو قائم رکھتے ہوئے متحد ہوجائیں اور ان کے دلوں ایک ہوں تو ان کی بہت بڑی آبادی بن جائے گی۔''
امام خمینی معتقد تھے کہ اتحاد و وحدت؛ تائید رحمن و الٰہی ہے اور جب متحد ہوجائیں۔ خدائے تبارک و تعالیٰ کی حمایت اور خداوند تعالیٰ کا ساتھ تمہارے ساتھ ہوگا۔
صحیفۂ امام، ج٧، ص١٠٧