خبررساں ایجنسی شبستان کی رپورٹ کے مطابق دینی مدارس اور یونیورسٹیز کے پروفیسر حجت الاسلام حمید زادہ نے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا اس حقیر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جب امام خمینی(رہ) نے یکم فروری کو بہشت زہرا میں تقریر کرنا تھی اور امام(رہ) آنے میں لیٹ ہوئے تو مجھے تقریر کرنا پڑی۔
انہوں نے کہا کہ امام(رہ) کی تقریر سننے کیلئے بہشت زہراء میں لوگوں کا ایک جم غفیر تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ لمحات تاریخی تھے۔ جب سب امام(رہ) کی تقریر سننے کیلئے بے چینی سے انتظار کررہے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 1979 میں ایران کی سایسی فضا میں کسی حد تک تبدیلی ہوئی کچھ سیاسی قیدی رہا کئے گئے اسی طرح اسی سال امام خمینی(رہ) کے بیٹے سید مصطفی خمینی(رہ) کی شہادت ہوئی۔ اسی طرح روزنامے اطلاعات نے امام خمینی کی توہین کی۔
انہوں نے کہا ان دونوں واقعات کے خلاف قم کے لوگوں نے احتجاج کیا سب سے پہلے قم کے شہداء کا شہر یزد میں چہلم منایا گیا جہاں کچھ لوگ شہید ہوئے۔ پھر یزد کے لوگوں کا چہلم تبریز میں منایا گیا۔ بندہ حقیر نے نیز اس چہلم میں تقریر کی۔
اس واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حجت الاسلام حمید زادہ نے کہا کہ مجھے شہید مطہری نے فون کیا اور کہا کہ آپ نے چہلم کے پروگرام میں تقریر کرنی ہے۔ اگلے دن میں نے زیارت عاشورا پڑھی اور غسل شہادت کیا اور مسجد کی طرف اپنے بھائی کے ساتھ چل پڑا۔
انہوں نے کہا مسجد کے باہر لوگوں کا بہت ہجوم تھا اس لئے مجھے عقبی دروازے سے اندر جانا پڑا۔ مسجد کے اندر شہید مطہری سمیت دوسری شخصیات بیٹھی تھیں۔ میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ زمانے کے یزید کے خلاف قیام کرنا ضروری ہے کیونکہ میں نے انتہائی سخت اور انقلابی تقریر کی تھی۔
حجت الاسلام حمیدزادہ نے کہا اس لئے مجھے شہید بہشتی نے کہا کہ آپ اصفہان چلے جائیں وہاں آپ کیلئے ایک گھر کا بندوبست کردیا گیا ہے۔ میں اصفہان جاتے ہوئے قم میں ایک عالم دین کے گھر پہنچا۔ یہ عالم دین آج کل مجتہد ہیں۔
انہوں نے مجھے بتایا کہ آپ کی تقریر بی بی سی نے نشر کی ہے اس لئے ساواک آپ کے تعاقب میں ہوگی۔ اس لئے مجھے اور میرے گھر والوں کو تکلیف ہوگی۔ اس لئے میں نے ان کے گھر سے نکلنا مناسب سمجھا۔
انہوں نے کہا کہ صرف مقرر ہونا کافی نہیں ہے اگر فن کے ساتھ اخلاص نہ ہوتو تمام محنت اکارت ہوجاتی ہے۔