امام(رح) كے بنیادی اصول میں، اقوام  و ملل عالم سے روابط اور دوستی بڑهانا

امام(رح) كے بنیادی اصول میں، اقوام و ملل عالم سے روابط اور دوستی بڑهانا


آستان: صدر ڈاكٹر روحانی كی خارجہ پالیسی و سیاست  كس قدر حضرت امام خمینی(رح) كے افكار ونظریات سے سازگار اور ہم آہنگ ہے؟

جناب زیبا كلام: ’’ نہ شرق اور نہ غرب ‘‘ كے نعره پر مبنی بیرونی سیاست سے ہٹ كر اور ’’ عزت، حكمت اور مصلحت ‘‘ كے اصول سے توجہ ہٹا كر، اگر یہ كہیں كہ یہ سب اپنی جگہ درست ہیں، لیكن ہم كچھ دیر كےلئے ان كلی اور اصولی مفاہیم سے باہر نكلنا چاہتے ہیں۔ اگر زیاده غور سے دیكهیں تو ہمیں بے خوبی نظر آتا ہے كہ ان چند سالوں میں ہماری بیرونی پالیسی اور سیاست سنجیدگی كے ساتھ توسیع اور كشیدگی سے دچار تهی۔

جو كچھ ایک ملک كی بیرونی سیاست كو طے كرتا ہے، اس ملک كے قوم کے منافع ہیں، ایک معروف جملہ ہے: ’’ كسی ملک كے دوست نہ ہمیشہ دوست ہیں اور نہ دشمن ہمیشہ دشمن ہیں، بلكہ قومی منافع فیصلے كرتے ہیں كہ دوست اور دشمن كون ہیں۔‘‘ اور یہ وہی اصول ہے جسے امام خمینی(ره) اپنی بیرونی سیاست میں ہمیشہ تعاقب كرتے تهے۔

میرے عقیده میں اب تک جناب صدر روحانی كی بیرونی حكمت عملی اور سیاست، حضرت امام خمینی(رح) كے افكار ونظریات سے قریب تهی۔

آستان: حضرت امام خمینی(رح) كی نگاه سے كن شرائط میں، قومی اور ملكی منافع كے تحفط كےلئے ہم دشمن سے مذاكره اور موافقت كرسكتے؟

زیبا كلام: امام خمینی(رح) بیرونی سیاست اور پالیسی كو تمام ملل اور اقوام كے ساتھ روابط اور دوستی كی ایجاد اور استحكام كے زاویہ سے دیكهتے تهے اور ان كی نظر میں تعلقات اور روابط قطع كرنا بہت ہی استثنائی موارد كےلئے تها۔

امام خمینی(رح) كے سیاسی افكار كا بینادی اور ثابت اصول میں سے ایک نہ كسی پر قبضہ جمانے کی کوشش كرو اور نہ كسی كے غلام اور قبضے میں جاو ہے، آئین میں بهی یهی معنی اور دستور آیا ہے۔

افكار امام كے ثابت اصول میں سے ایک مختلف ملل اور اقوام سے دوستی اور تعلقات برقرار كرنا اور بڑهانا ہے۔

لہذا ان شرائط كے تحت دشمن كے ساتھ بهی مذاكرات كے ذریعے توافق اور تفاہم تک پہنچ سكتے۔

ای میل کریں