سب سے اہم اوربنیادی بات یہ ہے کہ انسان رمضان البمارک میں اپنی اصلاح کر ے،نفس کی اصلاح ہماری ضرورت ہے،ہم تہذیب نفس کے محتاج ہیں،زندگی کے آخری لمحات تک ہمیں تزکیہ نفس کی ضرورت ہے،انبیاء (ع)بھی اس کے محتاج ہیں ۔اُولوالعزم انبیاء(ع)کوبھی اس کی ضرورت ہے ،لیکن انھوں نے خودسے اس ضرورت کو سمجھا اور اس راہ میں جد و جہد بھی کیا،اورکیوں کہ ہماری آنکھوں پر حجاب ہے اس لئے ہم نہیں سمجھے اوراپنے فرائض پر عمل نہیں کیا،مجھے اُمید ہے کہ انشاء اللہ رمضان المبارک کایہ مہینہ ہم سب کے لئے مبارک ہو ۔ اوریہ ہمار ے لئے اس طرح مبارک ہے کہ ہم جو فرائض اللہ تعالیٰ نے ہم پر عائد کیا ہے اس پر عمل کریں۔ (صحیفه امام، ج 18، ص 480)
اس مہمانی میں سب کچھ ترک اور خود کو روکنا ہے،شہوات ترک کرنا جیسے کھانے،پینے اور دیگرجہات سے جن کو انسان کی شہوت تقاضا کرتی ہے ۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ہمیں اس مہمانی میں ضرور داخل ہونے کی تاکیداور دعوت دی ہے اور یہ ضیافت بھی سوائے ترک کے کچھ اور نہیں؛ہوا و ہوس،خودخواہی،خود بینی اورسب کچھ خود کے لئے اور خود کو سمجھنا،ترک کرنا۔ اور یہ تمام مطالبات اس مہمان خانہ میں ہیں اور ہمیں یہ سوچنا چاہیئے کہ کیا حقیقتاً میں اس مہمانہ داخل ہوابھی ہوں یا ابھی بالکل باہر ہوں،کیا مجھے اس ضیافتخانہ میں داخل ہونے دیا گیا ہے یا نہیں ؟ اس الٰہی میہمانی سے کوئی بہرہ لیا ہے یا نہیں۔ البتہ مجھ جیسوں کا حساب وسامنا کرام الکاتبین کے ساتھ ہے ۔
لیکن میں آپ تما م حضرات اور جس جس تک میرا یہ کلام پہنچے گااور خاص کر جوان طبقہ سے عرض کرتاہوں کہ کیاآپ اس مہمانخانہ میں گئے ہیں؟ کیااس سے بہرہ اور نفع حاصل کیا ہے ؟شہوات خاص کر معنوی شہوات سے چشم پوشی کیا ہے ؟ یا یہ کہ میری طرح ہیں ؟ (صحیفه امام:ج 13،ص 36)