نجف میں بعض لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ شیعوں کے عالیقدر مراجع کے مقام کی رعایت کے عنوان سے ایک طریقہ اپنایا جائے تاکہ علماء اور مراجع کے درمیان فرق باقی رہے۔ وہ اس بہانے سے امام کی اجتماعی حیثیت اور آپ کے مقام کو نظر انداز کرنا چاہتے تھے۔ یہ مسئلہ امام کے دوستوں پر گراں گزرا۔ ہم چند افراد معین ہوئے کہ سارے دوستوں کی جانب سے امام کی خدمت میں جائیں اور عرض کریں کہ ایک ایسا مسئلہ ہے۔ میں چونکہ بات کرنے میں کچھ جری تھا اس لیے امام کی خدمت میں عرض کیا کہ ہر ماحول کے اپنے اپنے آداب ورسوم ہیں اور علی الظاہر ان رسوم وآداب کی رعایت میں شرعی طورپر کوئی مضایقہ نہ ہے۔ آپ کی حیثیت ایسی ہے کہ آپ سارے مسلمانوں کے (لیڈر) ہیں اور یہ مقام اسلام کی خاطر بھی محفوظ رہنا چاہیے۔ وہ حضرات اس منصوبے کے تحت چاہتے ہیں کہ آپ کی حیثیت کو نظر انداز کریں یا خدانخواستہ اپنے حساب سے وہ آپ کی توہین کرنا چاہتے ہیں ۔ لہذا ہم اپ سے درخواست کرتے ہیں کہ اس ماحول پر حاکم آداب ورسوم کی بنا پر ان حضرات کے منصوبے کو رد فرمائیں ۔ جب ہماری باتیں ختم ہوئیں تو انہوں نے ایک قصہ نقل کیا کہ ہم نے ان کی روحانی عظمت کے سامنے اپنی حقارت وشرمندگی کا احساس کیا۔ امام نے فرمایا: ’’ماضی میں جب بجلی نہیں تھی اور گلی کوچے تاریک تھے، علماء میں سے ایک صاحب کہیں جا رہے تھے اور آداب کے مطابق ایک آدمی ان کے آگے چراغ لئے ہوئے تھا۔ اتفاق سے وہ ایک مجلس جا رہے تھے کہ ایک اور صاحب بھی اسی مجلس میں شرکت کیلئے جا رہے تھے۔ جب راستے میں ایک دوسرے سے اتفاق ہوا تو ایک صاحب نے ان سے کچھ فاصلہ اختیار کرلیا تاکہ معلوم ہو کہ ان کی اپنی ایک خاص لابی وانداز زندگی ہے اور چراغ کے ساتھ راستہ چلنے کا ان کا ایک خاص امتیاز ہے اور وہ چاہتے تھے کہ ان کی عظمت کا چرچا اور شہرہ ہو‘‘۔ امام نے اس داستان کو نقل کرنے کے بعد کہا: ’’اگر قیامت کے دن رسول اﷲ ﷺ کے سامنے ہمیں کھڑا کردیا جائے اور ان چیزوں کے بارے میں ہم سے سوال کیا جائے تو کیا آپ حضرات نے ان سوالات کا جواب سوچا ہے کہ مثلاً یہ صاحب آگے ہوں اور وہ صاحب پیچھے ہوں ۔ یہ پہلے ہوں اور وہ بعد میں ہوں ؟ یہ سب ظاہری چیزیں جن کو ہم اہمیت دیتے ہیں ۔ اگر اس صف میں رسول خدا ؐ ہم سے پوچھیں تو ہمارے پاس کوئی جواب ہے؟ اس کے بعد فرمایا: ’’اسی لائحہ عمل کے مطابق چلو جو ان لوگوں نے مرتب کیا ہے‘‘۔