امام بعض اوقات گرمیوں میں محلات تشریف لے جاتے تھے۔ سنہ ۱۳۲۵ ھ ش (۱۹۴۶ء) کی گرمیوں میں جب محلات آئے تو وہاں کے علماء جو امام کے عقیدتمند تھے انہوں نےآپ سے درخواست کی کہ ایک مسجد ان کے سپرد کردیں تاکہ مومنین فیضیاب ہوں ۔ امام نے فرمایا کہ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیجئے۔ آپ لوگ اپنے کاموں میں مصروف رہئے۔ یہ کہہ کر انکار کیا۔ جب ماہ رمضان کے چند دن گزر گئے تو کچھ لوگوں نے کہا کہ اگر آپ کو جماعت منظور نہیں ہے تو کم سے کم ایک جلسہ رکھئے تاکہ کچھ لوگ آپ کے بیان سے استفادہ کریں ۔ آخر کار اصرار کے بعد امام نے ایک درس کی حد تک قبول کر لیا۔ یہ درس ماہ رمضان میں شام پانچ بجے شہر کی مرکزی مسجد میں ہوا کرتا تھا اور امام ایک ستون کے پاس زمین پر بیٹھتے تھے جبکہ سامعین آپ کے ارد گرد بیٹھا کرتے تھے۔ اس درس میں ہم نے دو قابل ذکر نکتہ ملاحظہ کئے جو میرے ذہن سے کبھی بھی محو نہیں ہوسکتے۔ ایک یہ کہ پہلے دن علماء وروحانیوں نے آکر شرکت کی اور امام نے درس کے بعد فرمایا کہ اگر آپ لوگ شرکت کریں گے میں اس درس کی چھٹی کر دوں گا۔ آپ کا معاشرے میں جو مقام ہے وہ محفوظ رہنا چاہیے۔ دوسرا نکتہ یہ تھا کہ اس وقت یہ رواج تھا کہ اگر کوئی عالم آتا تھا تو اس کے احترام میں درود پڑھا جاتا تھا۔ یہاں پر بھی ایک شخص جب امام آتے تھے تو لوگوں سے درود کیلئے کہتا تھا۔ پہلے دن جب یوں درود پڑھا گیا تو درس کے اختتام پر امام نے اس شخص کو قریب بلا کے کہا: ’’آپ جو یہ صلوات پڑھتے ہو اس سے مقصود میرا آنا ہے یا یہ درود رسول گرامی اسلام ؐ کیلئے ہے؟ اگر آپ لوگ رسول اکرم ﷺ کیلئے پڑھتے ہیں تو اسے کسی اور وقت پڑھا کریں اور اگر آپ میرے مسجد میں داخل ہونے کی وجہ سے پڑھتے ہیں تو میں راضی نہیں ہوں ‘‘ اس جلسے میں سے ایک نکتہ میرے ذہن میں ہے کہ امام نے بہت سادہ لہجے میں فرمایا: ’’میرے عزیز دوستو! آپ جو یہ اونی کوٹ پینٹ۔۔۔ خرید کر پہنتے ہو اور اس سرج کے کوٹ اور پینٹ پہ مغرور ہو کر اتراتے ہو، کیا آپ نے کبھی یہ نہیں سوچا ہے کہ یہی اون کہاں سے بن کے آتا ہے؟ کیا یہ وہی اون نہیں ہے جو بھیڑ کے بدن کو چھپائے ہوئے تھا؟ اس سے پہلے بھیڑ کے بدن پر یہی اون تھا اور بھیڑ اس پر مغرور نہیں تھی۔ اب یہی اون کاٹا گیا اور رنگ کیا گیا اس سے کوٹ اور پینٹ بنایا گیا تو اس نے آپ کو بدل دیا ہے۔ یہ کیا بدبختی ہے کہ ہم اس طرح کی بے بنیاد چیزوں سے دل لگائے ہوئے ہیں ؟۔
حجت الاسلام سروش محلاتی