کسی نے روایت کی ہے کہ جناب خلیل حامدی مرحوم جو جماعت اسلامی کے بیرون ملک روابط کے انچارج تھے، بیان کرتے ہیں امام خمینی نے اپنی جدوجد کا آغاز 1963ء میں کیا جب ایران میں دس ہزار سے زائد مظاہرین شہید کر دیے گئے۔ مولانا نے اپنے ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ میں نہ صرف اس ظلم کی مذمت کی بلکہ امام خمینی کے حق میں مضمون شائع کروایا۔
پاکستان میں چونکہ شہنشاہ ایران کا طوطی بولتا تھا تو اس جرأت رندانہ پر پرچہ ضبط کر لیا گیا اور تادیبی کارروائی بھی کی گئی۔ یہ شائد امام خمینی (رہ) کے حق میں اٹھنے والی پہلی پاکستانی آواز تھی۔ 20جنوری 1979ء کو امام خمینی (رہ) کے دو نمائندوں نے مولانا مودودی (رہ) سے ملاقات کی۔ وہ امام کا خصوصی خط لے کر آئے تھے۔ جناب رفیق ڈوگر (صحافی) نے ملاقات سے پہلے اور ملاقات کی تمام تر تفصیلات اپنی کتاب ’’مولانا مودودی سے ملاقاتیں میں درج کر دیں۔ 18جنوری 1979ء کو مذکورہ وفد کی آمد کی مناسبت سے گفتگو کرتے ہوئے رفیق ڈوگر نے مولانا مودودی سے سوال کیا کہ امام خمینی (رہ) کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے؟ تو انہوں نے کہا: گذشتہ کئی سال سے ہمارے ان سے روابط ہیں۔
20جنوری 1979ء کو امام خمینی کے دو نمائندوں ڈاکٹر کمال اور انجینئر محمد کی آمد سے قبل جماعت اسلامی کے اکابرین سے مولانا مودودی نے فرمایا: "آیت اللہ خمینی دیگر شیعہ علماء سے مختلف نظریات رکھتے ہیں۔ انہوں نے شیعہ علماء کے اس موقف سے اختلاف کیا ہے کہ امام منتظر کے انتظار میں اسلامی احکام پر عمل معطل رکھنا چاہیئے۔ خمینی کا کہنا ہے کہ جب تک امام منتظر نہیں آتے ہم حالات و واقعات سے بےنیاز نہیں رہ سکتے۔ ہمیں اپنے طور پر حالات کو اسلام کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ یہ فکری تبدیلی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ ہمیں کوشش کرنا چاہیے کہ ایران میں خمینی اقتدار میں آ جائیں۔"
رفیق ڈوگر نے وفد کے حوالہ سے لفظوں میں جو نقشہ کھینچا وہ مولانا مودودی کی دلی کیفیت کی خوب ترجمانی کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ مولانا مودودی نے کہا He is a man of god. مولانا مودودی نے وفد سے جو کلمات ادا کیے ا نکا تذکرہ کیے بغیر شاید یہ گفتگو مکمل نہ ہو، مولانا نے ملاقات کے دوران فرمایا: تحریک اسلامی ایران میں کامیاب ہو یا پاکستان میں، اس سے ایک دوسرے کو فائدہ پہنچے گا۔ مسلمان کہیں بھی ہوں وہ ایک ملت ہیں۔ پاکستان کے لوگ دل و جان سے خمینی کے ساتھ ہیں۔ آپ کی آمد پر مجھے بےحد خوشی ہوئی ہے۔ آیت اللہ خمینی تک میرا شکریہ پہنچا دیں۔
مولانا نے پھر کہا: "مسلمان خواہ پاکستان میں ہوں، ترکی یا ایران میں وہ سب ایک ملت ہیں ان میں کوئی فرق نہیں، ہم میں کوئی وجہ اختلاف نہیں۔ ہمارا خدا ایک ہے۔ قرآن ایک ہے اور رسول ایک ہے۔
جب ڈاکٹر کمال نے بتایا کہ ایران میں شیعہ سنی سب اس تحریک میں شامل ہیں تو مولانا مودودی نے انہیں مطلع کیا کہ پاکستان میں بھی اس فرق کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ یہاں بھی شیعہ سنی ہر شعبہ زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں، ہم امید کرتے ہیں کہ ایران میں بھی ایسا کیا جائے گا۔ انجینئر محمد نے کہا:
اگر دو آیت اللہ، آیت اللہ خمینی اور آیت اللہ مودودی مل کر اعلان کریں تو عالم اسلام کا ایسا اتحاد عمل میں آ سکتا ہے جو مسلمان ممالک کی کایا پلٹ دے گا اور وہ دنیا کی سب سے بڑی قوت ثابت ہوں گے"۔
اس نشست سے مولانا مودودی کی انقلاب اسلامی سے محبت کا واضح اظہار ہوتا ہے۔ ان کی دلی تمنا تھی کہ اس ملک پاکستان میں بھی اسلامی انقلاب آئے۔ انہوں نے بالصراحت کہا کہ شیعہ و سنی میں کوئی فرق نہیں ہے اور وہ انقلاب اسلامی کے لیے متحد و متفق ہیں۔ انجینئر محمد نے جو بات کی اس پر آج بھی عمل کی ضرورت ہے کہ اگر شیعہ سنی، رہنما ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اٹھ کھڑے ہوں تو ان سے بڑی طاقت اور کونسی ہو سکتی ہے اور آج کے مسائل کا حل اسی جذبے میں کار فرما ہے۔ اس مضمون کے لکھنے کا مقصد فقط یہ ہے کہ ایسا مسلمان عالم دین جو کہ فقہ حنفیہ پر کاربند ہے نے دوسرے فقہی مسلک کے بارے میں کس قدر اچھے جذبات و خیالات کا اظہار کیا ہے۔ آج ہم ان وسیع القلب اسلاف کے طور طریقوں کو بھول چکے ہیں جس کی وجہ سے فرقہ واریت کا جن اپنی قوت کے ساتھ قتل و غارت گری میں مصروف ہے۔ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے ہاتھوں دین کے نام پر قتل ہونا جہالت نہیں ہیں تو اور کیا ہے؟ یقیناً ہمارا مشترکہ دشمن اپنے مذموم مقاصد کے لیے نفرتوں کے بیج بو رہا ہے۔ آج وہ شخص اللہ اور اس کے رسول (ص) کی بارگاہ میں مقبول ہوگا جو فرقہ واریت و دہشت گردی کی آگ پر پانی ڈالے۔ بقول انجم رومانی
بیدار! اہل قافلہ سونے کے دن گئے
ہشیار! آگ میں ہے یہ جنگل گھرا ہوا
بشکریہ اسلام ٹائمز