وہ شرعی رقوم (مال امام اور زکات۔۔۔) جو ملک کے باہر رہنے والے امام کے مقلدین رقوم کی صورت میں بھیجتے تھے اور بعض اوقات ان کو ریال میں بدل دینا ضروری ہوتا تھا۔ یہ مسئلہ ہوتا تھا کہ ان رقوم کو حکومت کے مرکزی بینک کے تھرو سرکاری قیمت اخذ کی جائے (اس بنا پر حکومت کے ریٹ اور آزاد مارکیٹ کے ریٹ میں فرق پڑجاتا تھا یعنی ایسی صورت میں مربوط مستحقین کو کم ملتا تھا) یا ان کو آزاد مارکیٹ میں لے جا کر تبدیل کیا جائے اور اس پوری رقم کو شرع کے مقررہ مصارف میں خرچ کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ اگر سو ڈالر زکات یا فطرہ کہ جو فقیر کو دینی ہے، لازم ہے کہ وہی یا اس کی واقعی قیمت فقیر کو دی جانی چاہیے۔ اس کے باوجود امام نے فرمایا: ’’آقائے موسوی (اس وقت کے وزیر اعظم) سے پوچھا جائے۔ اگر حکومت کے لحاظ سے کوئی مشکل نہیں ہے تو رقوم آزاد مارکیٹ میں فروخت کی جاسکتی ہیں ۔