قابل فخر اور طویل عرصے پر مشتمل تہذیب و ثقافت کے حامل ایرانیوں کے لئے اسلامی انقلاب سے پہلے ٹیکنالوجی سے دوری اورعلمی پسماندگی بہت تکلیف دہ اور باعث ملال تهی۔ اس پسماندگی سے نکلنا ، نئی اسلامی تہذیب کو وجود دینے کے لئے علم ودانش کی سرحدوں کو عبور کرنا اور جدید ترین ٹیکنالوجی تک رسائی، اسلامی انقلاب کے مقاصد میں سے شمار ہوتی ہے۔ انقلاب کی کامیابی کے ابتدائی ایام اور عالمی طاقتوں کی طرف سے ایران پر مسلط کی جانے والی جنگ کے خاتمے کے بعد ،نہضت جہاد علمی اور تولید علم پر قائد انقلاب اور مسئولین کی خصوصی توجہ کی وجہ سے ملک میں جدید علوم وفنون کے میدان میں ترقی کے لئے کافی راہ ہموار ہوئی۔ ماضی قریب کے برسوں میں اسلامی جمہوریہ کی جدید ٹیکنالوجی تک رسائی اور علمی ترقی اس حد تک حیرت انگیز ہے جس نےمغربی تسلط پسند ممالک کو جوہری توانائی جیسے بہانوں کے ذریعےاس کے مقابلے میں ڈٹ جانے اور ایران کی روز افزوں ترقی میں رکاوٹ کهڑی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
بین الاقوامی جلسوں میں کئے جانے والے اعترافات کے تحت ایران کی علمی ترقی ، دنیا کی علمی بالیدگی کے مقابلے ۱۱ گنا زیادہ ہے۔ قومی و مقامی ٹیکنالوجی اور علمی بالیدگی پر اسلامی جمہوریہ کے بانی امام خمینیؒ کی ہمیشہ تاکید رہی ہے:
" میں اس مقام پر ملک کے عزیز جوانوں کو، ان عظیم الٰہی باقیات الصالحات کو اور دنیائے اسلام کے ان تازہ کهلنے والے خوشبودار پهولوں کو تاکید کرتا ہوں کہ اپنی زندگی کے شیرین لمحوں کی قدر کرتے ہوئے ، اسلامی انقلاب کے عظیم مقاصدکی راہ میں خود کو ایک بڑے علمی و عملی مقابلے کے لئے تیار کریں۔
اور میں تمام مسئولین اور کارکنوں کو تاکید کرتا ہوں کہ حتی الامکان جوانوں کے لئےاخلاقی، عقیدتی، علمی اور ہنری ارتقاء کے وسائل فراہم کریں اوراچهے اقدار اور اختراعات کی سرحدوں تک ان کے شانہ بشانہ چلیں۔ان کے اندر استقلال اور خود اعتمادی کا جذبہ زندہ رکهیں۔۔۔ ہم جنگ اور بائیکاٹ کے دنوں میں بهی اتنی ترقی اور ایجادات میں کامیاب رہے ہیں انشاء اللہ بہتر صورتحال میں رہتے ہوئے تحقیقات اور استعدادات کی نشوونما کے لئے اس سے بهی زیادہ ماحول سازگار کریں گے۔ جوانوں کے لئے علمی مقابلہ ،تحقیق و جستجو اور حقیقتوں کو کشف کرنے کا جذبہ زندہ کرنا ہے؛ لیکن ان کا عملی مقابلہ ، زندگی کے بہترین میدانوں میں جہاد اور شہادت کی صورت میں ہے ۔ " (صحیفہ امامؒ، ج۲۱، ص ۹۶)