گهریلو اشیاء میری اہلیہ کی ملکیت ہیں: امام خمینی(رح)

گهریلو اشیاء میری اہلیہ کی ملکیت ہیں: امام خمینی(رح)

جب یہ طے پایا کہ ملک کے بنیادی آئین کے مطابق صاحبان مناصب عظمیٰ اپنی ملکیت کا اعلان کریں تو سب سے پہلے امام بزرگوار(رح) نے خود اپنی اور اپنے متعلقین کی ملکیت کا اعلان فرمایا۔

جماران نیوز ایجنسی کے مطابق: انسانوں کی تربیت میں تاثیر گذار روش میں سے ایک، نمونہ عمل اور آئیڈیل ہونا ہے کہ جس کی مدد سے خود کے کردار کی روشنی میں طریقہ زندگی سکهاتا ہے، اب یہ کمال و سعادت کی راہ ہو یا زوال و بدبختی کی۔

قرآن کریم گزشتہ افراد کی عبرت آموز تاریخ بیان کر کے بہترین نمونہ عمل کے طور پر حضرت ابراہیم(ع) اور ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی(ص) کا ذکر کرتا ہے۔

ان عظیم ہستیوں کے پیروکاروں میں، کچه ایسے افراد بهی نظر آتے ہیں جو عملی طور پر یہ بیان کرنے کی قدرت رکهتے ہیں کہ:" ہماری طرح زندگی بسر کرو "۔ اگرچہ زبان سے یہ بات وہ ادا نہ کریں۔ بغیر کسی شک وتردید کے ان میں سے ایک فرد، امام خمینی(رح) ہیں۔ رہبر معظم کے بقول:" دنیائے انسانیت کو سمجهایا کہ ایک انسان کامل بننا، حضرت علی(ع) کی طرح زندگی بسر کرنا اور عصمت کے حدود تک پہنچنا کوئی افسانہ نہیں ہے"۔

جو چیز آپ سے آج یادگار کے طور پر محفوظ ہے وہ حکومت اور قوم وملت کے محافظین کے لئے بہترین درس ہے۔ ان میں سے ایک امام خمینی(رح) کی قانون مداری ہے، تا کہ یہ باتیں تمام عہدہ داران مملکت کے لئے سرمشق قرار پا سکیں۔

آیت اللہ العظمیٰ موسوی اردبیلی بیان فرماتے ہیں:" جب یہ طے پایا کہ ملک کے بنیادی آئین کے مطابق صاحبان مناصب عظمیٰ اپنی ملکیت کا اعلان کریں تو سب سے پہلے امام بزرگوار(رح) نے خود اپنی اور اپنے متعلقین کی ملکیت کا اعلان فرمایا۔

آیینه حسن، ص180و181

سپریم کورٹ کے لئے امام خمینی(رہ) کی ملکیت کا اعلان:

 

نام: روح اللَّه

فیملی نام: مصطفوى معروف به خمینى

شناختی کارڈ نمبر : 2744

محل صدور: خمین

عہدہ: روحانى

 

1)   غیر منقول ملکیت:

1- قم میں ایک عدد گهر، باغ قلعہ نامی محلہ میں جو کہ مشہور جگہ ہے۔

2- والد کی میراث سے ملنے والی زمین کا ایک ٹکڑا۔ حضرت آقائے پسندیدہ (بڑے بهائی) کے کہنے کے مطابق یہ زمین میرا اور معظم لہ اور بهائی مرحوم (آقائے ہندی) کے ورثہ کے درمیان مشترکہ ہے، نیز بهائی کے بقول ہر سال، سہم الاجارہ چہار ہزار ریال ہے جو کہ نہیں دیا جاتا۔

(یاد رہے کہ یہ حصہ بهی سنہ 26/12/1362 هـ شمسی (بمطابق 16 مارچ 1984ء) میں خمین کے فقـرا کے نام کروایا گیا)۔  (صحیفہ امام، ج18، ص390)

 

2)   منقول ملکیت:

1- تہران میں موجود تهوڑی رقم جو لوگوں کی جانب سے مجهے تحفۃً بشکل ہدیہ موصول ہوئے۔

2- گهر کا سامان نہیں ہے۔ تہران اور قم میں جو تهوڑا بہت گهریلو استعمال کے وسائل ہیں وہ میری اہلیہ کی ملکیت ہیں۔

گهر میں دو عدد قالین ہے۔ مجهے دی گئی ہیں کہ اگر چاہوں تو اسے خمس میں شمار کروں۔ یہ میری یا میرے وارثین کی ملکیت میں نہیں ہیں، انہیں ضرورتمند اور فقیر سید کو دینا ہوگا۔

چند عدد کتاب، مابقی وہ کتب ہیں جو شاہ مفرور کے زمانہ میں لوٹ لی گئیں ان کی تعداد کا مجهے علم نہیں ہے اور چند عدد وہ کتابیں ہیں جو صاحبان کتاب نے مجهے تحفۃً پیش کی ہیں، جن کی قیمت کا مجهے علم نہیں ہے لیکن اتنا ضرور معلوم ہے کہ کوئی خاص قیمت اس کی نہیں۔ تہران میں موجود گهر میں جو وسائل ہیں وہ گهر کے مالکوں سے متعلق ہیں، احمد کو اس کا علم ہے۔

3- تمام وہ مبلغ جو بینکوں یا گهر یا لوگوں کے پاس موجود ہے کہ جس کے بارے میں جناب پسندیدہ کو علم ہے، اس معمولی رقم کے علاوہ جس کا تذکرہ کر چکا ہوں، یہ سب وجوہ شرعیہ ہیں اور میری خود کی ملکیت نہیں ہیں، میرے وارثین کا اس میں حق نہیں ہے۔ ان کی ذمہ داریوں کی جانب وصیت کے ضمن میں اشارہ کر چکا ہوں۔

تاریخ 24/ دى ماه 1359 – 7 / ربیع الاول 1401 هـ،ق

روح اللَّه الموسوی‏

صحیفه امام، ج‏13، ص:523،524

ای میل کریں