آیت اللہ ابراہیم امینی کا کہنا تها:
جب میں مدرسہ حجتیہ میں رہا کرتا تها رومانٹیزم بیمار کی وجہ سے سخت گرفتار ہوا۔ چالیس دن کے قریب بستر بیماری میں پڑا رہا، توان حرکت بهی مجه سے سلب ہوچکا تها، دروس بهی خواہ ناخواہ مجه سے چهوٹا گیا۔ اس دوران امام بزرگوار، آیت اللہ شیخ جعفر سبحانی سمیت دو مرتبہ میری عیادت کیلئے تشریف لائیں جو اس حال میں مجه بہت ہی خوشی ہوئی اور تسلی کا باعث بهی بن گیا۔
اسی طرح مجه یاد ہے کہ کبهی کبهار کلاس درس کے بعد، امام راحل کے ساته نکل کر آپ کے دوش بدوش راستے طے کیا کرتا تها اور اگر کوئی مسئلہ یا درس کے بارے میں مشکل پیش آجاتی تو آپ سے ضرور پوچها کرتا تها اور آپ بهی تواضع کے ساته جواب دے دیا کرتے تهے۔ ایک دن امام بزرگوار میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا: سوچا ہے کہ حاج آغا میرزا مہدی بروجردی کے دیدار کیلئے جاؤں، اگر ارادہ ہے تو ساته چلیں۔ ہم دونوں ٹانگہ میں سوار ہوئیں۔ مقصد کو جب پہنچ گئیں، امام نے دس ریال ٹانگہ والا کے سپرد کردیا۔ اس نے کہا تو کچه نہیں لیکن اس کی نگاہوں سے معلوم ہوتا تها کہ اس کا توقع اس سے زیادہ ہے۔
البتہ کرایہ تو نفری پانچ ریال تها۔ میں امام سے عرض کیا: گویا ٹانگہ والا مزید کرایہ کا توقع رکهتا تها؟ آپ نے فرمایا: اس کا حق یہی تها، اگر اس سے زیادہ دے دیا ہوتا تو یہ اس کیلئے ایک عادت بن جاتی!!
منبع: هفته نامه حریم امام / ش101