امام خمینی (ره) اور عالم اسلام کی وحدت

امام خمینی (ره) اور عالم اسلام کی وحدت

اس وجہ سے امام خمینی (ره) امریکا اور اس کے علاقائی مرکز یعنی اسرائیل سے تعلق کو نہ صرف یہ کہ ایک قدرتمند ملک سے ایک نامشروع روابط کی نگاہ سے دیکهتے ہیں بلکہ عالم اسلام کی وحدت کے حوالے سے تدبیری جنگ سمجهتے اور اسلامی ممالک میں امریکا کے اثر و رسوخ اور اس کی اجارہ داری اور فرمانروائی کو تسلیم نہ کرنے کو عالم اسلام کی حیات نو اور ان ممالک میں تفرقہ دور کرنے کا موجب جانتے ہیں


 حضرت امام خمینی (ره) کی کوششیں آپ کی نظر میں عالم اسلام میں تفرقہ کے عوامل و اسباب پر مبتنی ہیں اور آپ کی نظر میں عالم اسلام میں تفرقہ کی اصلی اور بنیادی وجہ خارجی عناصر اور بیرونی عوامل ہیں کہ وہ ہمارے داخلی عناصر اور عوامل کی مدد سے قومی اور مذہبی اختلاف جیسے دو اہم اوزار و وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے امت مسلمہ کا شیرازہ بکهیرنے کے لئے آگے بڑهتے اور اس کے لئےکوشاں رہتے ہیں ۔ اس وقت ضروری ہے کہ ہم اس موضوع کی تحقیق کریں کہ امام خمینیؒ کی نظر میں وحدت تک پہونچنے کا کیا راستہ ہے یا عالم اسلام کی (strategie) وحدت کو کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے ؟ امام خمینیؒ کے شائع شدہ آثار کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ وحدت کی غرض سے ان کی حکمت عملی اور اسٹراٹجی (strategie) دو سلبی اصول پر استوار ہے کہ اس کے ہمراہ کچه ایجابی اسباب اور وسائل کو بروئے کار لاکر وحدت عالم اسلام کو تحقق عطا کیا جاسکتا ہے۔

 

الف ) بڑی طاقتوں سے جنگ و مقابلہ اور ان سے برائت و بیزاری۔

امام خمینیؒ  کی نظر میں تفرقہ کی اصلی وجہ کے پیش نظر بدیہی ہے کہ آپ وحدت تک پہونچنے کے لئے سب سے اہم اسٹراٹجی (strategie) سپر طاقتوں اور سامراجی قوتوں سے ٹکرلینے اور ان طاقتوں کے اثر و رسوخ اور تسلط کو ختم کرنے کو عالم اسلام پر دوبارہ وحدت کا پرچم لہرانے کی اہم وجہ قلمداد کریں۔ اس بارے امام خمینیؒ میں فرماتے ہیں :

‘‘دنیا کے مسلمانوں کو یہ جان لینا چاہئے کہ سپر طاقتیں ان کی دشمن ہیں اور ان کو فریب دے رہی ہیں مگر یہ کہ اپنی آنکهوں سے اس کے برخلاف عمل کا مشاہدہ کریں اور اس کو محسوس کریں’’۔ (صحیفہ امام، ج۲۱، ص ۲۱)

دوسری جگہ فرماتے ہیں :

‘‘جو شخص مذہب اسلام کا تابع ہے اس کو سپر طاقتوں کی مخالفت کرنی چاہئے اور مظلوموں کو ان کی چنگل سے نجات اور رہائی دلانی چاہئے ’’۔ (صحیفہ امام، ج۱۳، ص ۶۹)

امام اس حوالے سے بطور خاص  امریکا سے مقابلہ کرنے پر زور دیتے ہیں اور اس کو عالم اسلام میں تفرقہ اندازی اور دادا گیری کا اہم مصداق اور بانی سمجهتے ہیں اور فرماتے ہیں :

‘‘اہم ترین تکلیف دہ مسئلہ جس کا زیر اثر ممالک  کی غیر اسلامی اور اسلامی ملتوں اور قوموں کو سامنا ہے وہ امریکا ہے۔ امریکا دنیا کے محروم اور مستضعف لوگوں کا دشمن ہے۔ امریکا دنیا پر سیاسی و اقتصادی اور ثقافتی و عسکری حیثیت سے اپنا قبضہ جمانے کے لئے کسی بهی قسم کا جرم کرنے سے پرہیز نہیں کرتا’’۔ (صحیفہ امام، ج۱۳، ص ۲۱۳)

اس وجہ سے امام خمینیؒ امریکا اور اس کے علاقائی مرکز یعنی اسرائیل سے تعلق کو نہ صرف یہ کہ ایک قدرتمند ملک سے ایک نامشروع روابط کی نگاہ سے دیکهتے ہیں بلکہ عالم اسلام کی وحدت کے حوالے سے  تدبیری جنگ سمجهتے اور اسلامی ممالک میں امریکا کے اثر و رسوخ اور اس کی اجارہ داری اور فرمانروائی کو تسلیم نہ کرنے کو عالم اسلام کی حیات نو اور ان ممالک میں تفرقہ دور کرنے کا موجب جانتے ہیں ۔

 

ب) امت اسلامی کے انسجام کی حفاظت اور تفرقہ پردازی کرنے والے عناصر سے مقابلہ:

امام خمینیؒ سپر طاقتوں کی نفی کے علاوہ ان کے داخلی اوزار و وسائل اور عناصر کی نفی کوبهی عالم اسلام کے اتحاد اور امت اسلامی کی یکجہتی کی حفاظت کے لئے ایک دوسرا بنیادی قدم جانتے ہیں ؛کیونکہ اس بات کے پیش نظر کہ امام خمینیؒ نے عالم اسلام میں تفرقہ و اختلاف کے دو اہم اسباب و عوامل کو قومی اور مذہبی تفرقہ کے عنوان سے یاد کیا ہے، آپ اس بارے میں فرماتے ہیں :

‘‘ہمیں اس پہلو کو مدنظر رکهنا چاہئے کہ ہم سب مسلمان ہیں ہم سب اہل قرآن اور اہل توحید ہیں اور ہمیں قرآن و حدیث کے لئے زحمت اٹهانی چاہئے اور ان کی خدمت کرنی چاہئے ’’۔  (صحیفہ امام، ج۱۳، ص ۵۴)

‘‘یہ مسئلہ کہ ایک طرف شیعہ اور دوسری طرف سنی ، اس کی بنیاد جہالت و نادانی کی وجہ سے ہے اور غیروں کے پروپیگنڈہ کا نتیجہ ہے آج وہ دن ہے کہ ہم سب کو متحد ہوجانا چاہئے اور سارے مسلمان ایک ہوں’’۔ (صحیفہ امام، ج۱۳، ص ۱۵۲)

 

 ‘‘سپر طاقتوں اور ان سے وابستہ ممالک کا اسلامی ممالک میں منصوبہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو کہ خداوند عالم نے ان کے درمیان اخوت ایجاد کی ہے اور مومنین کو اخوت کے نام سے یاد کیا ہے ، ایک دوسرے سے جدا کردیں اور ان کو ایک نہ ہونے دیں اور یہ بالکل اسلامی راہ اور روش کے برخلاف ہے اور قرآن کریم کے بهی منافی ہے ۔ تمام مسلمان آپس میں بهائی بهائی ہیں اوربرابر ہیں اور ان میں کوئی بهی دوسرے سے جدا نہیں ہے اور ان سب کو پرچم توحید اور پرچم اسلام کے نیچے ہونا چاہئے اور یہ لوگ جو ملت و قومیت اور گروہ بندی کے نام پر تفرقہ پردازی کرتے ہیں یہ شیطان کے چیلے اور سپر طاقتوں کے دست و بازو اور مخالفین قرآن کریم ہیں’’ (صحیفہ امام، ج ۱۳، ص ۴۴۴)

امام ؒ منافع قومی اورملی کے بجائے اسلامی مصلحتوں پر زور دیتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ مختلف قوموں کے افراد اسلامی محور کے گرد جمع ہوکر ہی اپنے اسلامی منافع کو حاصل کر سکتے ہیں ، اس بنا پر آپ یقین رکهتے ہیں کہ سپر طاقتوں اور داخلی تفرقہ کے عوامل و اسباب کی نفی کر کے اسلامی ملتوں کے درمیان وحدت کے موانع برطرف ہوسکتے ہیں اور مسلمانان عالم پهر سے ایک الٰہی حکومت کی عظمت و بزرگی اور شان و شوکت کا نظارہ کر سکتے ہیں ۔

 

ای میل کریں