چہلم کا دن دراصل واقعہ کربلا میں ایک نئی تحریک کے آغاز کا دن تها ۔ واقعہ کربلا کے بعد کربلا کے تپتے ہوئے صحرا میں حضرت ابا عبداللہ امام حسین علیہ السلام، ان کے اهل بیت علیہم السلام اور ان کے با وفا ساتهیوں کی بے نظیر قربانیوں کے بعد اهل بیت(ع) کی خواتین اور بچوں کی اسیری کا آغاز ہوا جس کے ذریعہ اِن قیدیوں نے پیغام کربلا کو کونے کونے تک پہنچا دیا۔
حضرت زینب(س) اور حضرت امام سجاد(ع) نے اپنے خطبات اور حقائق کو بیان اور واضح کرنے کے ذریعے در اصل ایک مضبوط و مستحکم میڈیا کی مانند واقعہ کربلا کے مقاصد، اہداف، اُس کے مختلف پہلووں اور ایک انقلابی اور زندہ سوچ کو جہاں جہاں بهی انہیں موقع ملا پهیلا دیا۔
کوفہ اور شام جیسے شہروں میں جہاں سیاسی اصطلاح کے مطابق دباؤ اور گهٹن کا ماحول تها اور کربلا سے اِن شہروں کے درمیانی راستے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد حضرت زینب(س) یا امام سجاد(ع) کی زبانی یا ان اسیروں کی حالت زار دیکه کر بہت کچه سمجه گئے تهے لیکن کسی میں یہ طاقت و جرأت نہیں تهی کہ وہ ظلم و ستم کے اُس حکومتی نظام کے خلاف اور اُس سیاسی دباؤ کے دور میں جو کچه اُس نے سنا اورسمجها ہے اُسے اپنی زبان پر لائے! یہ واقعہ اور یہ تمام حقائق ایک پهندے کی صورت میں مومنین کے حلق میں پهنسے ہوئے تهے۔ لیکن اِس احساس اور پهندے نے چہلم کے دن اپنا حصار توڑ دیا اور چشمہ بن کر کربلا میں پهوٹا۔
شاید حضرت زینب(س) کی مدبرانہ "ولائی” سیاست کہ جس کے مطابق اُنہوں نے شام سے مدینے جاتے وقت کربلا جانے پر اصرار کیا، کا مقصد یہ تها کہ اربعین کے دن کربلا میں یہ چهوٹا سا مگر پُر معنیٰ اجتماع منعقد ہو سکے۔
آج ہماری چشم دید ہے کہ لاکهوں کی تعداد اہل تشیع نیز محبان حسین(ع)، عراق کے اس جنوبی شہر کی جانب جانے والی شاہراہوں پر پیدل رواں دواں ہیں جبکہ عراقی حکام نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اس موقع پر تکفیری دہشت گرد، زائرین کو اپنے حملوں کا نشانہ بنا سکتے ہیں، اس باوجود عاشقان مظلوم نینوا(ع)، فریاد "لبیک یاحسین، لبیک یا زینب" کی آواز بلند کرتے، بلاخوف وشک وشبہ اپنے معشوق کی طرف دواں دواں ہیں۔
شہدائے کربلا کا چہلم معمول کی کوئی سادہ سی رسم یا مجلس کا معمولی سا پروگرام نہیں ہے بلکہ مستند اعداد شمار کے مطابق یہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی اجتماع ہے کہ جس کی اساس اور بنیاد دین اور معنونیت پر استوار ہے کہ جس پر اس وقت ساری دنیا کی توجہ لگی ہوئی ہے۔
یہ درحقیقت اُس ہدف کے محقق ہونے کا ثبوت ہے جو امام حسین(ع) اور اُن کے اصحاب واہل بیت(ع) کی شہادتوں کی وجہ سے یقینی تها، یعنی کربلا کے عالمی اور انقلابی افکار کو لوگوں تک پہنچانا اور اُنہیں یہ طاقت و جرأت دینا کہ وہ ظلم کی آنکهوں میں آنکهیں ڈال کر بات کر سکیں۔
عصر حاضر کے مجدد اور کربلائے حسین(ع) کے پیروکار، حضرت امام خمینی(رح) نے حضرت سید الشہدا علیہ السلام اور آپ کے باوفا اہل بیت(ع) اور اصحاب(رح) کی مظلومیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
مجالس واجتماعات میں گریہ کا محرک یہ نہیں ہے کہ ہم حضرت سید الشہدا علیہ السلام پر گریہ کریں۔ سید الشہدا(ع) کو اس گریہ کی ضرورت نہیں ہے اور صرف اس گریہ سے کوئی کام انجام تک نہیں پہنچتا۔ لیکن یہ مجلسیں لوگوں کو اکٹها کرتی ہیں۔ تین ساڑهے تین کروڑ لوگ محرم وصفر میں خاص کر روز عاشور، اکٹها ہوتے ہیں اور ایک ہی رخ پر چل پڑتے ہیں۔ بعض ائمہ(ع) نے بلا وجہ نہیں فرمایا کہ منبر پر میرے مصائب بیان کیئے جائیں؛ بلا وجہ نہیں فرمایا کہ جو شخص روئے، رلائے یا رونے والے جیسی صورت بنائے تو اس کا اجر نہ جانے کیا کیا ہے۔ بات صرف گریہ کی نہیں ہے اور گریہ دار جیسی صورت بنانے کی نہیں ہے، بلکہ اس میں کچه سیاست ہے۔ ہمارے ائمہ (ع) اپنی خداداد بصیرت کے پیش نظر یہ چاہتے تهے کہ ان قوموں کو یکجا اور متحد کردیں تاکہ ان کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔
(صحیفہ امام، ج ١٣، ص ٣٢٣)