محرم اور صفر کا نام سنتے ہی جہاں پر سوگ اور مصائب کا تصور ذہن میں آتا ہے وہیں خطباء اور ذاکرین کی تصویر بهی ذہن میں آجاتی ہے کیونکہ ویسے تو محرم میں ہر طبقہ کا کچه نہ کچه کردار ضرور ہوتا ہے لیکن سب سے زیادہ اہمیت خطباء اور ذاکرین کی ہے،کروڑوں لوگ مختلف مقامات پر ان کی مجالس اور تقاریر سنتے ہیں انہی کے ذریعے کربلا کے شہداء کا تذکرہ دنیا میں عام ہوتا ہے، انہی کے ذریعے لوگ خانوادہ رسول(ع) پر ڈهائے جانے والے مصائب سنتے ہیں اور ان پر دل وجان سے گریہ کرتے ہیں اور اس عمل کو اپنی بخشش کا ذریعہ سمجهتے ہیں لہذا محرم وعاشورا اور سید الشہداء علیہ السلام کی عزاداری کو باقی رکهنے میں خطباء اور ذاکرین کا بنیادی کردار ہے لیکن یہ کہنا بهی بے جا نہیں ہے کہ فلسفہ عاشورا اور کربلا سے لوگوں کو دور رکهنے اور پیغام عاشورا سے عوام کی محرومیت کا سبب بهی یہی طبقہ ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس وقت بہت سارے پیشہ ور، خطیب اور ذاکرین کی روپ میں محرم اور صفر میں منبر افروز ہوتے ہیں جنہیں نہ کربلا سے آشنائی ہے، نہ عاشورا کی شناخت ہے، نہ امام حسین علیہ السلام سے ہمدردی ہے، نہ دین کی پرواہ ہے، انہیں فقط شہرت اور مال سے سروکار ہے جب کہ یہ طبقہ اگر حقیقت کربلا کو سمجه جائے تو ہر محرم ایک یزید کی نابودی کا باعث بن سکتا ہے اسی لئے امام خمینی(رح) نے اس طبقہ کو مخاطب قرار دیتے ہوئے فرمایا:
خطباء اور ذاکرین کو چاہئے کہ محرم کی روح کو سمجهیں، عاشورا کے پیغام کو درک کریں اور اپنی دید کی اصلاح کریں۔
امام خمینی(رہ) مزید فرماتے ہیں:
اب جبکہ محترم علماء، خطباء، ذاکرین، سید الشہداء(ع) کے شیعوں اور اسلام کے سپاہیوں کے ہاته میں محرم الہی شمشیر کی حیثیت سے موجود ہے تو انہیں اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنا چاہیے اور الہی قدرت پر بهروسہ کرتے ہوئے ظلم و ستم اور خیانت کی بچهی ہوئی جڑوں کو اکهاڑ پهینکنا چاہئے کیونکہ ماہ محرم یزیدی قوتوں اور شیطانی سازشوں کی شکست کا مہینیہ ہے۔
تبیان ج3ص27
جماران