سوال: حضرت امام خمینی (رح) نے اسلام دشمن عناصر سے ٹکرانے کے لئے کس روش کی تجویز دی؟
جواب: امام خمینی (رح) کے آثار میں معاند، معاندین جیسا کلمہ 16/ بار، معانده اور اسلام 1/ بار ، عناد 39/ بار اور عناداً دو بار استعمال ہوا ہے۔ ان کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ معاندین سے ٹکرلینے اور مقابلہ کے لئے پروگرام بنانا جذباتی نہ ہو۔
واضح رہے کہ معاند یا معاندین وہ لوگ ہیں جو کی دشمنی، کینہ، تکبر، خودپسندی اور انانیت کے ہمراہ ہو۔ اس کے باوجود اگر معاند دشمن آگاہ ہو تو واضح ہے کہ ان سے ٹکرلینے میں مقابلہ کا طریقہ ہر موضوع میں ایک خاص طرز کا حامل ہوگا۔
مثال کے طور پر اگر معاند اسلام کو ضرب لگانے کے لئے سیاسی کام کرے، جیسے سلمان رشدی کو آگے لانے میں پروگرام بنایا تھا، لیکن شیعہ اور سنی فقہ میں رشدی کے مرتد ہونے کے بارے میں موجود حکم کے اعلان سے، اسلام کی نسبت اس قسم کے عناد کے پروپیگنڈوں کو باطل کردیا۔ لیکن اگر عناد جہالت کی وجہ سے ہو تو اس طرح کے لوگوں کے ٹکرانے کی روش ارشادی اور تعلیمی ہو۔ مثال کے طور پر عناد کی دونوں ہی قسمیں کہ امام خمینی (رح) نے دوسری قسم کو ذاتی عناد کے جرگہ سے خارج جانا ہے مندرجہ ذیل عبارت ہے کہ کسی حد تک مقصود کو ادا کررہی ہے:
امید کرتا ہوں کہ اس انقلاب کی برکتیں ہر طبقہ اور گروہ کو بدل دے گی یہاں تک کہ منحرفین کو بھی۔ منحرف کٹر دشمن ہیں جن کی اصلاح ناممکن ہے۔ یہ لوگ کینسر کی طرح رہ جائیں گے کہ ان کی آپریشن ہی کے ذریعہ اصلاح ہو سکتی ہے۔ ایک گروہ معاند تو نہیں ہے، لیکن منحرف ضرور ہیں۔ انہیں ارشاد و رہنمائی کی جائے۔ جو لوگ راہ راست پر ہیں، وہ انہیں ہدایت کریں۔ (صحیفہ امام، ج 15، ص 430)
لیکن امام کے آثار میں مذکورہ بالا موضوع کے باب میں صرف لفظ عناد سے مشتق کلموں کو بیان کیا گیا ہے، کیونکہ عناد سے قریب مفاہیم میں "عداوت" اور "خصومت" اور اس کا فارسی کلمہ "دشمنی" اور "دشمن" بھی امام کے آثار میں استعمال ہوا ہے۔ لیکن ظریف بات یہ ہے کہ عناد کا عاطفی بار عموماً منفی ہوتا ہے۔ لہذا کوئی یہ نہیں کہتا کہ میں فلاں سے عناد رکھتا ہوں یا فلاں موضوع کا معاند ہوں لیکن عاطفی بار کے مورد میں عدو اور دشمن جیسے کلموں کی خدا کی طرف بھی نسبت دی جاسکتی ہے۔
بہر حال اس وجہ سے کہ عناد ظلم و زیادتی، ہٹ دھرمی، تکبر، خود پسندی کے ہمراہ تحقیر کے عنوان سے ایک دشمنی ہے۔ امام کی سیرت اور نظری اصول میں اس سے مقابلہ اس معیار اور کسوٹی پر ہے کہ معاند نے اس میدان میں قدم رکھا دیا ہے لیکن دشمنی کی اقسام کی نسبت عناد، خصومت یا ناقابل عفو اور خونین دشمنی تک نہ پہونچی ہو، تو اسلام کے اخلاقی دستورات ارشادی ہیں اور بہت سارے موارد میں قابل بخشش نہ هونے کے ساتھ اس بات کے ہمراہ ہے کہ دشمن کو دوست بنانے کی کوشش کرے۔