امام خمینی (رح) اور نہج البلاغہ

نہج البلاغہ کے تالیف کے ہزار سال پورے ہونے پر امام خمینی (رح) کا پیغام

فلاسفہ اور حکماء آئیں اور اس کتاب کے پہلے خطبہ کے جملوں کے بارے میں تحقیق کریں اور اپنے بلند و بالا افکار کا استعمال کریں اور اصحاب معرفت اور ارباب معرفت و عرفان کی مدد سے اس مختصر سے ایک جملہ کی تفسیر کریں

ID: 57414 | Date: 2019/01/21

بسم الله الرحمن الرحیم


نہج البلاغہ کے ہزار سال پورے ہونے کے بارے میں کیا گفتگو ہوگی اور کب سے اس کا تعارف ہوگا؟ دنیا کے بڑے بڑے دانشور حضرت امیر المومنین علی بن ابیطالب کا تعارف کرانا چاہتے اور دوسروں کو آپ کی شخصیت کے باخبر کرنا چاہتے ہیں یا نہج البلاغہ کا؟ ہم لوگ کس سرمایہ اور خرچ کے ساتھ اس وادی میں قدم رکھنا چاہتے ہیں؟


ہم حضرت علی بن ابیطالب (ع) کی ناشناختہ حقیقت کے بارے میں گفتگو کریں یا اپنے محبوب اور مہجور کی شناخت کی ساتھ۔ حضرت علی (ع) ایک ملکی اور دنیاوی بشر ہیں کہ ملائکہ ان کے بارے میں گفتگو کریں یا پھر ایک ملکوتی موجود ہیں کہ ملکوتی مخلوق آپ کے بارے میں اندازہ لگائے؟


آپ کے بارے میں عرفاء اپنی عرفانی سطح میں اور فلاسفہ و الہیوں اپنے محدود علم کی روشنی میں کن وسائل سے آپ کا تعارف کرانا چاہتے ہیں؟ ان لوگوں نے آپ (ع) کو کس حد تک پہچانا ہے تا کہ ہم مجبورا افراد کو آگاہ کریں اور اہل فضیلت، عرفاء، فلاسفہ تمام فضائل کے ساتھ اور سارے لوگ اپنے گراں قدر علوم کی ساتھ جو کچھ حق کے مکمل جلوہ کے بارے میں حاصل کیا ہے وہ اپنے وجود کے حجاب اور اپنی نفسانیت کے محدود آئینہ میں ہے اور مولا علی (ع) کی ذات والا صفات اس کے علاوہ ہے۔ لہذا بہتر یہی ہے کہ ہم اس وادی سے صرف نظر کرکے بس یہی کہیں کہ مولا علی (ع) خدا کے صرف بندہ ہیں اور یہ آپ کا سب سے بڑا امتیاز ہے کہ آپ کو اسی سے یاد کیا جاسکتا ہے اور یہ کہ آپ (ع) رسولخدا (ص) کی آغوش تربیت کے پروردہ ہیں اور یہ بھی آپ کا سب سے بڑا امتیاز ہے۔


کون دعوی کرسکتا ہے کہ وہ اللہ کا بندہ ہے اور تمام عبودیتوں سے منہ موڑے ہوئے ہے۔ جز انبیاء عظام اور اولیائے کرام کہ علی (ع) ایسے بندہ ہیں کہ غیر سے جدا اور دوست سے ملحق انسان ہیں کہ آپ نے نور و ظلمت کے حجابوں کو پارہ کرکے معدن عظمت تک پہونچے ہوئے ہیں۔ آپ پہلی صف میں ہیں اور کون شخصیت ہے جو یہ دعوی کرے کہ بچپنے سے لیکر رسولخدا (ص) کی عمر کے آخری لمحات تک وحی اور وحی کے حامل انسان حضرت محمد (ص) کی آغوش تربیت اور پناہ رسالت مآب میں رہی ہو۔  یہ صرف اور صرف علی بن ابی طالب (ع) تھے کہ صاحب وحی کی تربیت اور آپ پر ہونے والی وحی کا اثر آپ کے رگ و ریشہ اور دل و جان میں سرایت کئے ہوا تھا۔ پس حقیقت میں یہ اللہ کے بندہ ہیں اور عبدالله اعظم کے تربیت یافتہ ہیں۔


رہی کتاب نہج البلاغہ جو آپ کی روح سے نکلنے والے جملوں کا مجموعہ ہے جو انانیت کے بستر پر سونے والوں اور خودخواہی کے حجاب میں بسر کرنے والوں کی تعلیم و تربیت کے لئے بہترین نسخہ اور شفا کے لئے عمدہ معجون اور انفرادی و سماجی دردوں کا مرہم ہے۔ یہ ایک انسان اور ایک عظیم انسانی معاشرہ کے ابعاد و جوانب کے بقدر ایک مجموعہ ہے۔ اس کے آغاز سے انجام تک یعنی جتنا معاشرہ آگے بڑھے اور حکومتیں اور اقوام وجود میں آئیں اور جتنے محققین، فلاسفہ اور مفکرین پیدا ہوں اور اس میں غور وفکر کریں غرق ہوجائیں۔


فلاسفہ اور حکماء آئیں اور اس کتاب کے پہلے خطبہ کے جملوں کے بارے میں تحقیق کریں اور اپنے بلند و بالا افکار کا استعمال کریں اور اصحاب معرفت اور ارباب معرفت و عرفان کی مدد سے اس مختصر سے ایک جملہ کی تفسیر کریں اور اس کے حقیقی ادراک میں اپنے ضمیر کو راضی کرنا چاہیں لیکن شرط ہے کہ اس بیان میں خود کو دھوکہ نہ دیں اور صحیح سمجھ کے یعنی اپنے ضمیر کے ساتھ کھلواڑ نہ کریں، صرف کچھ کہہ کر گذر نہ جائیں کہ میدان دیکھتے ہی کہہ دیں کہ فرزند وحی کو دیکھ لیا ہے اور اپنے اور دوسروں کے قصور و عاجزی کا اعتراف کریں۔ یہ ہے وہ جملہ:


" مع كل شي لا بمقارنه و غير كل شي لابمزايله" یہ جملہ اور اس کے مانند اہلبیت وحی کے کلمات میں ذکر ہوا ہے۔ یہ سورہ حدید میں کلام اللہ کی تفسیر اور اس کا بیان ہے اور آخر زمانہ کے مفکرین کے لئے آیا ہے۔ "و ہو معکم این ما کنتم"


امید کرتا ہوں کہ نہج البلاغہ کی تالیف کے ہزار سالہ پورے ہونے کے موقع پر ہونے والی کانفرس میں آپ دانشور اور مفکرین امام علی (ع) کے عرفانی، فلسفی، اخلاقی، تربیتی، اجتماعی، نظامی، ثقافتی اور دیگر ابعاد و جوانب کو ممکن حد تک بیان فرمائیں گے اور اس عظیم کتاب کا انسانی معاشرے میں تعارف کراتے ہوئے بیان کریں کہ یہ ایسی متاع اور پونجی ہے جس کے خریدار انسان اور نوارنی دماغ ہیں۔


رسول اکرم (ص) پر لامتناہی درود و سلام ہو کہ آپ نے ایسی الہی موجود کو اپنی آغوش تربیت میں تربیت کرکے انسانیت کے لائق کمال کا حامل بنادیا۔ ہمارے مولا و آقا حضرت علی (ع) پر درود و سلام کہ آپ انسان اور قرآن ناطق کا نمونہ ہیں اور ابدالآباد تک آپ کا عظیم نام باقی ہے اور خود انسانیت کا نمونہ اور اسم اعظم کا مظہر ہیں۔ اور آپ دانشوروں پر بھی خدا کی رحمت ہو کہ آپ نے اپنی قیمتی اور مفید افکار سے اس پاکیزہ کتاب کے بلند و بالا مقصد تک پہونچنے کی راہ کھولی۔


و السلام علي عبادالله الصالحين (علیهم السلام)


12/ رجب 1401ق


روح الله الموسي الخميني