مرنے کے قریب وصیت کرنا قرآن کریم کا تاکیدی حکم ہے کہ قرآن کریم نے صراحت کے ساتھ فرمایا ہے: تمہیں حکم دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آنے لگے اور تم دنیاوی مال و دولت کے مالک ہو تو اپنے والدین اور رشتہ داروں کے لئے کسی مناسب چیز کی وصیت کرے کہ یہ کام متقین کے لئے سزاوار ہے۔
اس موضوع کی تائید میں روایت بھی بہت ہیں بطور مثال رسول اکرم (ص) نے فرمایا: مسلمان کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ رات کو سوئے اور اس کی تکیہ کے نیچے اس کا وصیت نامہ نہ ہو۔
رسولخدا (ص) نے قرآن کریم کے اس دستور کی روشنی میں اپنے جانشین امام علی (ع) کے بارے میں حجة الوداع کے موقع پر خطبہ غدیر میں اپنی وصیتوں کو بیان فرمایا اور حکم دیا کہ حاضرین غائبین کو بھی بتادیں گے اور اپنی رحلت سے قریب بھی آنحضرت (ص) نے اپنی متاع اور قرض کے بارے میں اپنے قریبی لوگوں سے وصیت فرمائی تو صرف اس کی ذمہ داری حضرت علی (ع) نے قبول کرلی۔
جیسا کہ روایات میں منقول ہے کہ رسولخدا (ص) نے اپنے چچا عباس سے وصیت کرنا چاہا لیکن عباس نے کثیر العیال ہونے کا بہانہ بنایا اور اسے قبول کرنے سے انکار کیا۔ اس کے بعد رسولخدا (ص) نے فرمایا: آگاہ ہوجاؤ! کہ اب میں اپنی وصیت اسے کروں گا جو اسے قبول کرے گا اور اس کا حق ادا کرے گا اور وہ ایسا انسان ہے کہ جو تم نے کہا ہے وہ یہ نہیں کہے گا!۔ اے علی! جان لو کہ یہ تمہارا حق ہے اور کوئی تم سے اس امر میں جھگڑا نہ کرے۔ اب میری وصیت کو قبول کرو اور جو کچھ میں نے لوگوں سے وعدہ کیا ہے اسے انجام دو اور میرا قرض ادا کرو۔ اے علی ! میرے بعد میرے خاندان کا معاملہ تمہارے حوالہ ہے اور میرا پیغام آئندہ نسلوں تک پہونچادو۔
لیکن رسولخدا (ص) کا اپنی رحلت کے موقع پر قلم و دوات مانگنے کا مسئلہ ایک دوسری چیز ہے۔ پیغمبر (ص) نے اپنی وصی گرامی اور عزیزالقدر جانشین کی پوزیشن اور موقعیت کو ثابت کرنے کے لئے ایک آخری قدم اٹھایا اگر چہ اس کے بارے میں آپ (ص) نے بارہا بیان فرمایا تھا۔ اگر اس وقت کے معاشرہ میں لوگوں کے فیصلے آج کی طرح عقل و شرع کی روشنی میں ہوتے تو عالم اسلام اس درجہ آباد اور قوی ہوتا کہ اسے کسی قسم کا کوئی نقصان نہ ہوتا۔
رسولخدا (ص) کی زندگی کے آخری لمحات تمام ہورهے تھے اور آپ اپنے معبود بر حق سے ملاقات کے لئے آمادہ ہورہے تھے۔ اس وقت جب خداوند عالم نے آپ کو اختیار دے دیا کہ اسی دنیا میں رہنا چاہیں تو رہیں اور کسی دوسری جگہ کو اختیار کرنا چاہیں تو کرلیں۔ حضرت (ص) نے فرمایا:دنیا نہیں! میں رفیق اعلی کی فکر کررہا ہوں۔ اہلسنت اور شیعہ کی تصریح اور صحاح و سنن و تمام بزرگوں کے اعتراف کی روشنی میں یہ ہے کہ جب رسولخدا (ص) کے احتضار کا وقت آیا تو آپ کے گھر میں عمر بن خطاب اور کچھ دیگر لوگ موجود تھے۔ تاریخ اس طرح لکھتی ہے کہ آنحضرت (ص) کے گھر کے باہر منصب خلافت پر قبضہ کرنے کے لئےجو سرگرمیاں جاری تھیں، اس سے آپ (ص) باخبر تھے لہذا آپ نے خلافت کو اس کے محور سے منحرف ہونے سے بچانے اور اختلاف کی روک تھام کرنے کے لئے آپ نے امیرالمومنین (ع) اور اپنے اہلبیت کی خلافت کو محکم کرنے اور خلافت کے بارے میں زندہ سند چھوڑ کر جانے کا فیصلہ کیا۔
رسولخدا (ص) نے اس دن جب آپ کی عیادت کو اکابر صحابہ آئے تو آپ نے سر جھکایا اور کچھ دیر فکر کرنے کے بعد ان لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا: آؤ میں ایک نوشتہ لکھ دوں تا کہ تم لوگ میرے بعد کبھی گمراہ نہ ہوسکو۔ اس وقت عمر بن خطاب نے کہا: ان پر درد کا غلبہ ہے۔تمہارے پاس قرآن ہے اور کتاب الہی ہمارے لئے کافی ہے۔ اہلسنت کے متعدد مآخذ میں عمر بن خطاب کی بات نقل ہوئی ہے۔ عمر کے اس بیان کے بعد جو لوگ گھر میں موجود تھے ان کے درمیان اختلاف رائے ہوا۔ بعض نے کہا لایا جائے تا کہ مکتوب ہو، بعض نے عمر ہی کی بات کہی۔ اس کے بعد لوگوں میں اختلاف ہونے لگا اور بات لڑائی جھگڑے تک پہونچ گئی۔ جب رسولخدا (ص) کے سامنے اختلاف و نزاع ہونے لگی تو آپ (ص) نے فرمایا: میرے پاس سے دور ہوجاؤ، نبی کے پاس لڑائی جھگڑا مناسب نہیں ہے۔
لوگوں نے اختلاف اس وجہ سے کیا کہ وہ جانتے تھے کہ رسولخدا (ص) خلافت کے عہد و پیمان کو محکم تر اور علی (ع) کی خلافت پر نص کی تاکید کرنا چاہتے تھے۔ اس لئے انہوں نے آپ کو اس کا کام سے روکا جیسا کہ عمر بن خطاب نے عباس سے جھگڑتے ہوئے اس بات کی تصریح کی ہے۔ ابن عباس مسلسل یہ بات کہے جارہے تھے کہ یہ مصیبتیں اس وقت تھیں جب لوگ اختلاف کرکے شور مچانے لگے اور رسولخدا (ص) کی مرضی کے سامنے حائل ہوگئے۔ حضرت محمد (ص) بیماری کے عالم میں حدیث ثقلین کی تفصیل بیان کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنی امت کو گمراہی سے بچانے کی فکر میں تھے ۔