تین امریکی مجلات "نیویارک ٹائمز"، "وال اسٹریٹ جنرل" اور "فارن پالیسی" نے یہ خبر شائع کی ہے کہ امریکی صدر براک اوباما نے ولی امر مسلمین جہان حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کو ایک خط لکها ہے۔ ان اخبارات نے اس خط میں بیان شدہ بعض مطالب کو بهی شائع کیا ہے۔ لیکن ان خبروں کے آپس میں تضادات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان ذرائع ابلاغ کو اس خط تک دسترسی حاصل نہیں ہوئی اور انہوں نے صرف قیاس آرائیاں کی ہیں۔ لیکن حقیقت کیا ہے اور اس کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے؟
امریکی صدر براک اوباما نے اپنی صدارت کے دوران اب تک تین بار ولی امر مسلمین کو خط لکها ہے۔ ہر بار صدر اوباما کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ ایران کی مدد سے اپنی خارجہ سیاست کو درپیش مشکلات اور پیچیدگیوں کو حل کرسکے۔
براک اوباما کی طرف سے رہبر معظم کو پہلا خط اپریل 2009ء میں لکها گیا۔ امریکی صدر نے اس خط میں آپ سے درخواست کی کہ وہ ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے میں واشنگٹن کی مدد کریں۔
اوباما نے دوسری بار فروری 2013ء میں قائد انقلاب اسلامی کے نام خط لکها۔ یہ خط ایسے وقت لکها گیا جب ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری تنازعات کا سلسلہ چل رہا تها۔ اس خط میں امریکی صدر نے جوہری تنازعہ پر ایران کے ساته حتمی دوطرفہ معاہدہ انجام دینے میں واشنگٹن کی آمادگی کا اظہار کیا۔
تیسرا خط تقریباً ایک ماہ قبل لکها ہے۔ اس بار بهی امریکہ دو بڑی مشکلات کا شکار ہے۔ اس کی پہلی مشکل یہ ہے کہ وہ دوبارہ عراق میں آنا چاہتا ہے لیکن اسے ایران اور اس کے اتحادی ممالک کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا ہے۔ لہذا عراق میں دوبارہ اپنی فوجی موجودگی کو ممکن بنانے کیلئے آیت اللہ خامنہ ای کی مدد کا سہارا لے رہا ہے۔
امریکہ کی دوسری بڑی مشکل ایران کے ساته جاری جوہری مذاکرات ہیں۔ ولی امر مسلمین نے جوہری تنازعات کے بارے میں امریکہ کے ساته مذاکرات کیلئے ایرانی حکومت پر کچه شرائط عائد کر رکهی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے جب بهی ایران کے سپریم لیڈر کو خط لکها ہے، اپنی جاہ طلبی اور ناجائز خواہشات کی تکمیل میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے لکها ہے۔ لہذا امریکی صدر کی جانب سے ایک ماہ قبل لکهے جانے والا خط بهی امریکی خارجہ پالیسی خاص طور پر ایران کے بارے میں پیدا شدہ ڈیڈلاک سے براہ راست مربوط ہے۔
میڈیا نے صحیح یا غلط، اس بارے میں لکها ہے کہ امریکی صدر براک اوباما نے حضرت آیت اللہ خامنہ ای سے درخواست کی ہے کہ وہ شام کے بارے میں امریکی پالیسیوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے عراق میں داعش کے خلاف جاری جنگ میں امریکہ کو بهی کردار ادا کرنے کی اجازت دیں۔
یہ امریکی صدر کا آیت اللہ کے نام تیسرا خط ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ولی امر مسلمین ہمیشہ کی طرح اس بار بهی ایسا موقف اختیار کریں گے، جس کے صحیح ہونے پر تاریخ گواہی دے گی۔ ولی امر مسلمین اس بارے میں اپنے اس موقف کو بارہا دہرا چکے ہیں کہ:
"ملت ایران امریکہ پر اعتماد نہیں کرتی، انہوں نے مخملی دستانوں کے اندر فولادی ہاته چهپا رکهے ہیں۔"
اقتباس، اسلام ٹائمز اردو سے
شکریہ