موحودہ دور میں حادثہ عاشورا کے سلسلہ میں ایک نئی دید ونظر جسے ہم انسانی زاویہ کا نام دیتے ہیں.
تاریخ اسلام میں بالخصوص تاریخ تشیع میں حادثہ عاشورا ہمیشہ ہی مورخین اور مقتل نگاروں کے درمیان خاص توجہ کا مرکز رہا ہے؛ لیکن صدیاں گزرنے کے ساته ساته جہاں عزاداری میں وسعت پیدا ہوئی ہے وہیں اس عظیم واقعہ کے سلسلہ میں مختلف نظریات بهی قائم ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم آج اس حادثہ سے نئے طرز پر کیا چیزیں حاصل کر سکتے ہیں؟
عالم اسلام بالخصوص شیعوں کے درمیان حادثہ کربلا ان معدود حوادث میں سے ہے جو مختلف ادوار میں اجتماعی اور فکری جہات سے محققین، علماء اور صاحبان قلم کے لئے خاص اہمیت رکهتا ہے اور اس سلسلہ میں بے شمار آثار منظر عام پر آچکے ہیں؛ بطور مثال عاشورا کے سلسلہ میں تقریباً ہزار کتابیں تحریر کی جاچکی ہیں۔ جس سے اس حادثہ کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح واقعہ عاشورا اجتماعی مسائل میں بهی خاصہ دخیل ہے اور متعدد انقلابات کی کامیابی میں اس حادثہ اور واقعہ کا خاص کردار رہا ہے۔ جب بهی کوئی حادثہ اہمیت پیدا کر لیتا ہے تو اس وقت اس سے سیاسی اور فردی مفادات حاصل کرنے والے سوء استفادہ کرتے ہیں، غلط تحلیل نظر آتی ہے اس اعتبار سے حادثہ عاشورا بهی محفوظ نہیں لہذا ہمیشہ اس مسئلہ پر غور وفکر کرتے رہنا چاہئے۔
حادثہ عاشورا کے بارے میں انجام پانے والی تحقیقات کے نتیجہ میں ہم مندرجہ ذیل تین زاویوں سے بحث کر سکتے ہیں:
۱: اس زاویہ میں خاندان نبوت پر پڑنے والی مصیبت اور غم واندوہ کو خاص محوریت حاصل ہوتی ہے تو دوسری جانب سے ظلم، ستم، غارتگری اور قساوت قلبی؛ آج سے سو برس قبل جو بهی کتابیں عاشورا سے متعلق تحریر ہوئیں ان میں انہیں باتوں کا ذکر ہوا جو آج بهی مقتل کے نام سے ہمارے درمیان موجود ہیں۔ مثال کے طور پر " طریق البکاء، طوفان البکاء، امواج البکاء، بحر الدموع، عین الدموع، ریاض الاحزان اور مهیج احزان " وہ کتابیں ہیں جن میں عواطف اور احساسات پر زیادہ زور دیا گیا ہے اور کتاب گریہ،حزن اور غم واندوہ پر ہی ختم ہوجاتی ہے۔ اسی وجہ سے بعض علماء وفقہاء کا ماننا تها کہ حادثہ عاشورا اجتماعی مسائل میں نمونہ عمل قرار نہیں پا سکتا، اس سے ظلم کا مقابلہ کرنا نہیں سیکها جا سکتا! اسی لئے اس میں غم واندوہ اور حزن وملال نیز گریہ وبکا کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
۲: دوسرا زاویہ دید اس حادثہ کا حماسی ہونا ہے جو گذشتہ ایک صدی میں پیدا ہوا اور ایران میں ۴۰ کی دہائی سے {۱۳۴۰ ہجری شمسی} اسے زیادہ پُر رنگ دیکها گیا۔ میرا عقیدہ یہ ہے کہ جو کچه شیعہ حضرات کے درمیان رائج ہے اسے دنیا سے الگ نہیں تصور کیا جا سکتا۔ موجودہ دور میں دنیا میں متعدد انقلابات آئے جیسے مغربی امریکہ اور کمیونیسٹ کا انقلاب؛ جن کے سبب ظلم سے مقابلہ کی نئی اصطلاحات سننے کو ملیں۔ اس کے بعد شیعوں کو سمجه میں آیا اس حوالہ سے تو ہمارے پاس ایک عظیم منبع موجود ہے اور پهر اُن کے یہاں بهی نئی اصطلاحات جیسے حماسہ کربلا، حماسہ عاشورا وجود میں آئیں اور اسی ضمن میں کتابیں بهی تالیف ہوئیں جو ظلم وستم سے مقابلہ کرنے میں بیحد موثر ثابت ہوئیں۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی میں بهی ۹/اور۱۰/محرم، ۱۳۵۷ہجری شمسی کے احتجاجات اور اربعین حسینی(ع) کے پروگرام کی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ایرانی غیوروں کے لئے حادثہ عاشورا در حقیقت روحی اور روانی غذا کا کام انجام دے رہا تها جس سے انہیں بے پناہی حوصلہ نصیب ہوا۔
گذشتہ ۱۰۔ ۱۵ برسوں سے حادثہ عاشورا پر ایک نئی جہت سے تحقیق ہو رہی ہے لیکن ابهی تک معرض وجود میں نہیں آئی جس میں انسانی کرامت، انسانی حقوق اور خواتین کے مسائل قابل غور ہیں۔ میں اسے انسانی زاویہ دید کا نام دیتا ہوں۔ اس زاویہ میں جنگ، خون اور شمشیر پر بحث نہیں ہوتی بلکہ کچه اس طرح تحلیل ہوتی کہ اگرچہ امام حسین علیہ السلام پر یہ جنگ تهوپی گئی اور جنگ کا بازار گرم کیا گیا لیکن اس حادثہ میں انسان کے اخلاق وکردار مشاہدہ کئے جا سکتے ہیں۔ انسانی عادات میں جو چیزیں قابل بیان ہیں ان میں اخلاق کی رعایت اور حقوق کی ادائیگی سر فہرست نظر آتی ہیں۔ حادثہ عاشورا میں انہیں چیزوں کو محور قرار دیا جاتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصحاب نے اپنے دشمنوں کے حقوق کی رعایت کی۔ ابهی اس پر کام ہو رہا ہے۔ حادثہ عاشورا میں انسانی کرامت اور حادثہ عاشورا میں خواتین کے مسائل کے سلسلہ میں کچه مقالات اور کتابچہ تحریر ہوئے ہیں۔ ابهی ابتدائی منزلوں میں یہ کام ہے، مزید کام کی گنجائش باقی ہے۔
حادثہ عاشورا کے سلسلہ میں مختلف زاویہ دید مستقبل میں ہمارے لئے کس حد تک متعدد موضوعات کے حاصل کرنے میں جواب دہ ہوگا جیسے حادثہ عاشورا اور فیمینزم وغیرہ آیا اس جیسے موضوعات کی بهی حادثہ عاشورا میں کوئی گنجائش ہے یا نہیں؟
حادثہ عاشورا کے بارے میں اُس وقت کوئی بهی زاویہ دید درست ہوگا جب اس میں مندرجہ ذیل تین معیارات کا پاس ولحاظ رکها گیا ہو:
۱: تاریخی حقائق سے سازگاری رکهتا ہو۔ بطور مثال جب کبهی آپ یہ کہنا چاہیں کہ امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصحاب با وفا نے ادب کا خصوصی خیال رکها، آپ مطمئن رہیں کہ تاریخ میں اس کے برخلاف ذکر نہیں ہوا ہے۔
۲: یہ زاویہ دید دین اسلام کے اہداف سے متضاد نہ ہو۔ مثال کے طور پر اگر ہم حادثہ عاشورا میں خواتین کے کردار کی بات کرتے ہیں تو ایسا نہ ہو کہ خود قرآن کریم نے اس کی مخالفت کی ہو۔ خلاصہ یہ کہ اس سلسلہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ اور امام علی علیہ السلام کی سیرت مدنظر رہے اور وہ اس سے مطابقت رکهتی ہو۔
۳: تیسرے یہ کہ وہ زاویہ دید حادثہ عاشورا کے تمام پہلوئوں پر محیط ہو۔
اگر مذکورہ تین شرائط کا خیال رکها جائے تو میرے اعتبار سے حادثہ عاشورا کو نئے زاویہ دید سے دیکهنا بجا ہوگا۔
جاری۔۔۔
بشکریہ جماران