رپورٹ کے مطابق، وہاں سفارتخانہ نہیں، جاسوسی اڈا تها: امام خمینیؒ

رپورٹ کے مطابق، وہاں سفارتخانہ نہیں، جاسوسی اڈا تها: امام خمینیؒ

" امریکا کو اس بات کی توقع ہے کہ وہ شاہ کو پناہ دے کر اپنے مقاصد کیلئے ہتهکنڈے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ایران کے اندر سازشی اڈا قائم کرے اور اس کے مقابل میں ہمارے جوان تماشایی بن کر دیکهتے رہیں!!"۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی روز بہ روز بڑهتی ہوئی مقبولیت اور استحکام کے سائے میں شاہی آمرانہ نظام کی جگہ نئے نظام کے قیام کیلئے متعدد بار کامیاب انتخابات کے عمل نے آمریکا کو اسلامی انقلاب کے خلاف مختلف قسم کی سازشوں اور دشمنی پر اکسایا۔

شاہ ایران کو ایران مسترد کرنے کے حوالے سے، ملت ایران کے تقاضے کو نظر انداز کرنے کے علاوہ، ایرانی قوم کی 22 ارب ڈالر مالیت کے اثاثوں کا منجمد کرنا، الجزیرہ میں بازرگان اور برژینسکی کی خفیہ ملاقات، نیز یکم نومبر 1979 کے دن امریکہ  اور اسرائیل کے خلاف امام خمینیؒ  کا یونیورسٹی اور حوزہ علمیہ کے طالب علموں کے نام پیغام نے، امریکہ کے جاسوسی اڈے پر حملے کی فضا فراہم کردی جس کی بناپر چار نومبر 1979 کو امام خمینیؒ کے پیرو مسلم طلبا نے کسی خطرے کی پرواہ کئے بغیر تہران میں واقع امریکی سفارتخانے کی عمارت پر گهس کر سفارتی عملے کو یرغمال بنایا اور اسی دن سے امریکی سفارتخانے کو "جاسوسی کا اڈا" کہا جانے لگا۔

امام خمینیؒ  نے طالب علموں کے اس اقدام کی حمایت کرتے ہوئے اسے انقلاب دوم کا نام دیا۔

امام خمینیؒ نے اپنے پیغام میں فرمایا:

" ہمارے جوانوں نے جس سینٹر پر قبضہ کیا تها، رپورٹ کے مطابق، وہ سفارتخانہ نہیں بلکہ سفارت خانے کی آڑ میں جاسوسی کا اڈا تها"۔

اس بات کی مزید وضاحت کرتے  ہوئے امام خمینیؒ نے فرمایا:

" امریکا کو اس بات کی توقع ہے کہ وہ شاہ کو پناہ دے کر اپنے مقاصد کیلئے ہتهکنڈے کے طور پر  استعمال کرتے ہوئے ایران کے اندر سازشی اڈا قائم کرے اور اس کے مقابل میں ہمارے جوان تماشایی بن کر دیکهتے رہیں!!"۔

 امام خمینیؒ نے اس ضمن میں ہونے والی سازش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"اب جبکہ ایک مرتبہ پهر فساد کی بنیادیں جڑ پکڑنے والی تهی اور اسی تناظر میں ہمیں مداخلت کرتے ہوئے جوانوں کے نام پیغام دینا تها کہ وہ اس سازش کے خلاف اٹه کهڑے ہوں لیکن جوانوں نے خود ایسے اعمال کا مشاہدہ کیا جس سے ان کے احساسات مجروح ہوگئے" ۔

امام خمینیؒ نے پچاس سالہ شاہی حکومت میں لوگوں پر ہونے والے مظالم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"شاہ نے اس عرصے میں عوامی دولت کو لوٹنے کے ساته ہزاروں لوگوں کو قتل کر ڈالا اور 5 جون  (15 خرداد ) کو 15 ہزار بے گناہ انسانوں کا خون بہایا، اور مذکورہ تاریخ  سے لیکر اب تک  ایک لاکه  کی تعداد میں لوگوں کو قتل کر ڈالا اور لاکهوں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے اور اتنے مظالم کے باوجود آمریکہ نے شاہ کو بیماری کے بہانے اپنے ہاں پناہ دے رکهی ہے اور امریکا میں اسے ہر قسم  کی آسایش فراہم کی جارہی ہے اور جب امریکہ میں موجود ایرانی جوانوں کی جانب سے مجسمہ آزادی اسکوائر پر شاہ کو ایران کے حوالے کرنے کیلئے مظاہرہ کیا جاتا ہے تو امریکی پولیس انہیں  متفرق کرنے کیلئے لاٹهی چارج کرتی ہے۔  امریکہ کی کوشش ہے کہ شاہ جیسے ہزاروں بے گناہ  افراد کے قاتل کی حمایت کے ساته سفارت کے نام پر ایران کے اندر جاسوسی کا اڈا قائم کیا جائے اور اسے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈوں کے نیٹ ورک کے طور پر  استعمال کرتا رہے اور اس میں جاسوسی کے آلات نصب کرکے جاسوسی کے عمل کو جاری رکهیں اور یہ سب کچه کرنے کے باوجود ان کی توقع یہ ہوتی ہے کہ اس حوالے سے ہمارے جوانوں کا کوئی رد  عمل نہ ہو اور لاکهوں کی تعداد میں قتل ہوجانے والے بے گناہ افراد کے رد عمل میں وہ خاموش  تماشائی بنے رہیں اور ان کی سازشوں کے مقابل میں کوئی آواز نہ اٹهائی جائے جبکہ ان کی سازشوں کے نتیجے میں لوگ آزادی سے محروم ہیں اگر ان کی سازشیں نہ ہوتی تو آج سب آزادی کی زندگی گزار رہے ہوتے۔ ہمارے جوان جب ان سازشوں کو اپنی آنکهوں سے دیکهتے ہیں اور ساته یہ بهی دیکهتے ہیں کہ انہی سازشوں کے ذریعے وہی عناصر ایک مرتبہ پهر اسلامی جمہوریہ ایران  میں پنجے گاڑنے کی کوشش کررہے ہیں، جو انقلاب اسلامی سے پہلے ایران پر حاکم تهے ایسی  صورت میں ہمارے جوان خاموش نہیں رہ سکتے۔ انہیں یہ توقع نہیں رکهنی چاہئے کہ ایران کی دولت  کو لوٹنے کے بعد ایک مرتبہ پهر ملت ایران کو سازشوں کے طوفان میں بہا دیا جاسکتا ہے لہذا ہمارے جوانوں کو چاہئے ہمارے خلاف ہونے والی سازشوں کے مقابلے میں اپنی تمام تر قوت کے ساته قیام کرتے ہوئے دشمن کی سازشوں کو خاک میں ملادے۔

 

بشکریہ جماران

ای میل کریں