موسسہ اطلاعات کے سرپرست حجۃ الاسلام سید محمود دعائی نے طاہرہ صفار زادہ کی ادبی خدمات کے سلسلہ سے ہونے والے سمینار میں کہا: اطلاعات نامی روزنامہ کے ایڈیٹر، بہرام قاسمی ملک کے مشہور ڈپلومیٹک شخص تهے۔ انہیں کے توسط سے میری اور مرحومہ صفار زادہ کی آپسی آشنائی ہوئی۔
آپ نے اپنی گفتگو کے دوران ایران سے دور رہنے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: انقلاب کے ابتدائی دنوں میں جب مجهے موسسہ اطلاعات کی ذمہ داری سونپی گئی، ایسا لگتاتها کہ میں تنہا اس عظیم فریضہ کی ادائیگی سے قاصر ہوں، اسی لئے شہید بہشتی کی خدمت میں پہنچا اور مرحوم شہید سے میں نے مدد چاہی۔ آپ نے بهی مجهے چند ایک افراد، منجملہ قاسمی کی معرفی فرمائی۔
حجۃ الاسلام دعائی نے فرمایا: قاسمی نے مجهے تجویز دی کہ اگر صفار زادہ قبول کرلیں تو مذکورہ روزنامہ کے ادبی صفحات پر نظارت کی ذمہ داری انہیں دے دی جائے بالخصوص اس لئے کہ موصوف حضرت امام(رہ) سے ایک خاص لگائو رکهتے تهے۔ انہیں اس کام کی دعوت دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اگر اشاعت کے لئے کوئی قلمی شاہکار ہوتا ہے تو پہلے اسے اطلاعات کو دیں گے۔ صفار زادہ اس وقت ایک ایسے اپارٹمنت میں زندگی بسر کرتی تهیں کہ جو بنیاد مستضعفین {غریب اور کمزور طبقات سے تعلق رکهنے والوں سے مربوط ادارہ} کی جانب سے انہیں موصول ہوا تها۔ آپ اس کرایہ کے علاوہ جو مذکورہ ادارہ کو دیتیں، کرایہ کا پیسہ اس مالک مکان کے اکائونٹ میں بهی ٹرانسفر کرتیں جو فراری تها تا کہ کسی کا حق ان کی گردن پر باقی نہ رہ جائے۔
آقای دعائی نے کہا: صفار زادہ دائم الذکر اور عابد وزاہد تهیں۔ آپ کا زہد خود ان کے اعمال میں قابل مشاہدہ تها۔ آپ اپنی اس روش زندگانی اور قرآن کریم سے مانوس ہونے کے سبب مکاشفہ جیسی حالت کے مالک ہو چکی تهیں۔ آپ اس سلسلہ میں کسی بڑے عالم سے مشورہ کرنا چاہتی تهیں جن میں امام خمینی(رہ) کا نام نامی سرفہرست تها۔ میں نے بهی اسی غرض سے امام سے ملاقات کرانے کی کوشش کی۔
حجۃ الاسلام دعائی نے اضافہ کیا: صفار زادہ کو اس کی اتنی خوشی ہوئی کہ فرط مسرت سے انہوں نے گریہ کیا۔ جب آپ امام سے ملاقات کی غرض سے آئے، کہا میں چادر نہیں اوڑهتی چونکہ حجاب اسلامی کی رعایت کرتی ہوں اور میرا حجاب مکمل طور پر شرعی ہے۔ مجهے بهی اس لحاظ سے یہ فکر لاحق تهی کہ ایک مذہبی روشن فکر کو امام سے ملاقات کرانے لے کر جا رہا ہوں اور مجهے کسی بهی ایسے کام سے بچنا ہوگا کہ جس کے نتیجہ میں وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں کہ مجهے زبردستی چادر اڑهائی گئی ہے! میں نے کہا: ایسے افراد امام سے ملاقات کو جاتے ہیں اور امام بهی ان کا احترام فرماتے ہیں۔ اس کے باوجود جب ہم جماران کے حسینیہ کے نزدیک پہنچے کیا دیکها کہ صفار زادہ نے اپنی نماز کی چادر، بیگ سے باہر نکالی اور اسے سر سے اوڑه لیا اور کہنے لگیں کہ میرا دل چاہتا ہے کہ یہ چادر متبرک ہوجائے۔
موصوف نے مزید کہا: امام کے حضور پہنچ کر، صفار زادہ کا تعارف کرایا۔ اس کے بعد پیرس میں دوران قیام جو شعر امام کے لئے انہوں نے پڑها تها میں نے اسے پڑها۔ جب میں شعر پڑه رہا تها، صفار زادہ کے رونے کی آواز بڑهتی ہی چلی گئی۔ میں نے امام سے عرض کیا: انہیں آپ سے کچه خصوصی گفتگو کرنی ہے اور یہ کہہ کر میں باہر آگیا۔ آدهے گهنٹے بعد صفار زادہ نے نہایت سکون کے لہجہ میں کہا: میرا بوجه ہلکا ہو گیا اور مجهے اپنی منزل کا پتہ مل گیا۔
حجۃ الاسلام دعائی نے اسی طرح صفار زادہ کے ادبی خدمات کا اجمالی جائزہ لیا اور ان کی نوجوانی میں شادی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: صفار زادہ کے شوہر جوانی کے عالم میں اور اس وقت جب ان کے استاد کی حیثیت رکهتے تهے، ان سے شادی کا مطالبہ کیا تها، لیکن چونکہ وہ ایک مالدار شخص تها لہذا صفار زادہ نے جواب منفی میں دیا تها۔
انہوں نے کہا: برسوں بعد وصال نے اس بات کا اظہار کیا کہ وہ اپنی جمع پونجی صفار زادہ کے اہداف کے تحقق کی راہ میں خرچ کریں گے اور طاہرہ انہیں اب مثبت جواب دیں گی۔ وصال کی وفات کے بعد، صفار زادہ نے اس کے گهر کو بنیاد قرآن کریم کے نام وقف کردیا۔
ماخذ: جماران