سید الشہداء(ع) کی سن 61 ہجری قمری میں حیات بخش حرکت اپنی الہی، سیاسی اور انسانی ماہیت اور اہداف کی خاطر ہمیشہ حقیقی دینداروں اور آزاد خیال لوگوں کیلئے الہام بخش رہی ہے۔
اس حماسہ حسینی(ع) کے بحر معارف سے ہر مفکر اور حقیقت جو نے ہر دور میں نایاب گوہر چنے ہیں جن کی کسی بهی مکتب فکر میں کوئی مثال نہیں ہے۔
حضرت امام(رح) نے اس قیام کے حقیقی درس آموزی کے عنوان سے شہنشاہ پہلوی کے خلاف قیام اور اسلامی جمہوریہ کی تاسیس نیز اپنے حکیمانہ مواعظ میں باربار سید الشہدا علیہ السلام کے قیام کے محوری درس کو انقلاب اسلامی ایران کی تحریک میں بیان کیا ہے، مثال کے طورپر:
کیفیت جنگ کو، مختصر سی جماعت کے ساته ایک بڑے لشکر سے کس طرح جنگ کی جائے، اس کیفیت کو، ظالم وجابر حکومت کے مقابلے میں قیام ایک محدود تعداد کے ساته کس طرح کیا جائے، یہ وہ چیزیں ہیں جس کا حضرت سید الشہداء(ع) نے ملت مسلمہ کو درس دیا ہے۔ (صحیفہ امام، ج 17، ص56)
آپ(رہ) ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
کیا ایسا نہیں ہے کہ " کل یوم عاشورا کل ارض کربلا " کے نصیحت آمیز دستور کو امت اسلام کیلئے سرمشق ہونا چاہئے؟ ہر دن اور ہر زمین میں قیام اور عاشور بـپا کرنا، عظیم ایمانی جذبہ وبصیرت لے کر قلیل جماعت کی ایوان ستم اور لٹیرے مستکبرین کے مقابلے میں عدالت خواہی کا قیام تها اور حکم یہ ہے کہ یہ مشن (ہر روز اور ہر زمین قیام وعاشور) زندگی میں نصب العین اور سرمشق ہو۔ (صحیفہ امام، ج9، ص445)